جرائم

‘آپ پاگل ہو گئے ہو، میری آپ سے کیا دشمنی ہے؟’

سلمان یوسفزئی

"اس روز جب میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے دفتر سے باہر نکلا تو اچانک دو لوگ مجھ پر حملہ آور ہوئے جن میں سے ایک نقاب پوش بھی تھا۔ دونوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے۔ انہوں نے مجھے ڈنڈوں سے مار مار کر شدید زخمی کر دیا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ لوگ مجھے کیوں مار رہے ہیں۔ تاہم وہ الزام لگا رہے تھے کہ آپ نے ہمارے بھائی کو مارا ہے جبکہ مجھے یاد ہی نہیں کہ میں نے اپنے 28 سالہ کرئیر میں کسی کو ہاتھ تک لگایا ہو۔”

پشاور سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی مسرت اللہ جان رواں سال 20 جون کو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بتا رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس روز روٹین کے مطابق انٹر مدارس کھیلوں کے مقابلوں کی کوریج کے لیے پشاور سپورٹس کمپلیکس گئے تھے۔ عصر کی نماز پڑھنے کے بعد جب وہ گیٹ سے باہر نکلے تو انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

"ایک شخص نے پشت پر ڈنڈے سے وار کیا، پھر میرے کولہوں اور ہاتھوں پر ڈنڈے پڑنے لگے۔ میں گیٹ سے ہو کر اندر آ گیا اور مارنے والے شخص سے کہا کہ آپ پاگل ہو گئے ہو، میری آپ سے کیا دشمنی ہے کہ جو اس طرح تشدد کر رہے ہو؟ اس دوران ایک کیئر ٹیکر جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کھڑا تھا، اس نے ڈنڈے والے شخص کو پکڑ لیا اور پھر لوگوں نے مجھے ہسپتال منتقل کر دیا۔”

مسرت اللہ کا دعویٰ ہے کہ ان پر ہونے والے حملے کی وجہ ان کی وہ رپورٹ ہے جس میں انہوں نے ‘پشاور ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس میں چوری کی بجلی کا استعمال’ کا انکشاف کیا تھا۔

صحافی مسرت اللہ جان کی فائل فوٹو
صحافی مسرت اللہ جان کی فائل فوٹو

انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس خبر کے بعد متعلقہ ادارے کی جانب سے انہیں کئی بار ہراساں کیا گیا اور ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے: "میں سمجھتا ہوں کہ بطور جرنلسٹ میں نے پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ خبر شائع کی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر یہ خبر درست نہیں تھی تو وہ میرے خلاف آیف آئی آر درج کراتے، عدالت جاتے لیکن انہوں نے غیرقانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا۔”

انہوں نے بتایا کہ بعد میں پشاور پریس کلب کی مداخلت پر مذکورہ افراد نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معاملے کو رفع دفع کرنے کی درخواست کی اور انہوں نے پشتون روایت کے مطابق ان کا جرگہ قبول کرتے ہوئے صلح بھی کر لی تاہم اس واقعہ نے مسرت اور ان کی فیملی کو ذہنی طور پر بہت پریشان کر دیا تھا۔

اس حوالے سے جب پشاور ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس سے رابط کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ معاملہ جرگے کے بعد ختم ہو گیا ہے اور اس حوالے سے مزید بات کرنے سے معذرت کر لی۔

مسرت کے مطابق ان کے گھر والے اکثر کہتے ہیں کہ آپ نے اس پورے سسٹم کو ٹھیک کرنے کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا، کچھ اپنا اور اپنے بچوں کا بھی خیال رکھا کریں! درحقیقت اب وہ خود بھی ڈر گئے ہیں کیونکہ اگر خدانخواستہ اس تشدد کے دوران انہیں کچھ ہو جاتا تو وہ صورتحال ان کے گھر والوں کے لیے ناقابل برادشت ہوتی۔

صحافی مسرت اللہ جان سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور خصوصی طور پر خیبر پختونخوا میں صحافت کرنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ ایک صحافی تو ذمہ داری سے اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہوتا ہے لیکن اس کے تحفظ کے لیے ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو اس قسم کی صورتحال میں اس کا اور اس کی فیملی کا سہارا بن سکے۔

پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ

خیال رہے کہ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں، 7 مئی 2021 کو، صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ کے لیے پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2019 کی منظوری دی گئی تھی۔ تاہم یہ ایکٹ خیبر پختونخوا میں تاحال نافذ نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے یہاں کے صحافیوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔

پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2019 کے مطابق ہر صحافی کو ذاتی زندگی، اہل خانہ اور پیشہ ورانہ امور میں مداخلت سے بچاؤ کا حق حاصل ہو گا جبکہ کوئی بھی صحافی کسی ایسے مواد کے پھیلاؤ کا باعث نہیں بنے گا جو جھوٹا اور حقائق کے منافی ہو۔ حکومت صحافی کو کسی ادارے، شخص یا اتھارٹی کی طرف سے کردارکشی، تشدد یا استحصال سے تحفظ دے گی جبکہ صحافی اپنی کردارکشی، تشدد اور استحصال پر 14 دن کے اندر اندر کمیشن کو شکایت درج کرائے گا۔

بل کے مطابق کسی صحافی کے آزادانہ طور پر اپنے پیشہ ورانہ امور نمٹانے کی راہ میں رکاوٹیں نہیں کھڑی کی جائیں گی جبکہ صحافی کے ذرائع کو خفیہ رکھنے کے لیے حکومت قانون کے ذریعے تحفظ فراہم کرے گی۔ صحافی کو اپنے ذرائع بتانے کے لیے نہ تو مجبور کیا جائے گا اور نہ ہی زبردستی کی جائے گی۔

جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ کے خیبر پختونخوا میں نفاذ کے حوالے سے سینئر صحافی اور پشاور پریس کلب کے سابق صدر شمیم شاہد کا کہنا تھا کہ موجودہ وقت میں ایک صحافی کو تب تحفظ ملے گا جب سابق کیسز کی انکوائری کی جائے گی لیکن بدقسمتی سے ابھی تک سابقہ ایک کیس کی بھی انکوائری نہیں کی گئی جو قابل تشویش بات ہے۔

شمیم شاہد کے بقول ایک اندازے کے مطابق خیبر پختونخوا میں گزشتہ 20 سالوں کے دوران 56 صحافیوں کو مختلف طریقوں سے قتل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اکثراوقات صحافیوں کو مختلف طریقوں سے ہراساں یا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر صحافیوں کے تحفظ کا یہ قانون نافذ بھی کر دیا گیا تب بھی وہ نہیں سمجھتے کہ اس سے صحافیوں کو کوئی آسانی مل جائے گی کیونکہ ان کے بقول "یہاں زیادہ تر اختیارات مقتدر حلقوں کے پاس ہوتے ہیں۔ قانون میں پولیس اور ڈپٹی کمشنر کے اختیارات واضح ہیں تاہم یہ دونوں یہاں بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔”

اس حوالے سے خیبر یونین آف جرنلسٹ (کے ایچ یو جے) سے یہ جاننے کے لئے رابطہ کیا گیا کہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ 5 سالوں کے دوران کتنے صحافیوں کو ہراساں یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ کے نفاذ کے لیے انہوں نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟

ناصر حسین خیبر یونین آف جرنلسٹ کے صدر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئے روز کہیں نہ کہیں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی جب پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بن رہی تھی تو اس روز بھی صحافیوں کو ہراساں کیا گیا اور انہیں مذکورہ ایونٹ کو کور کرنے سے منع کیا گیا تھا۔

ناصر حسین کے بقول اس روز اداروں کی جانب سے چار، پانچ صحافیوں کو نہ صرف حبس بے جا میں رکھا گیا تھا بلکہ ان سے موبائل فونز بھی چھین لئے گئے تھے جس پر خیبر یونین آف جرنلسٹ نے فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو رہا کروا دیا تھا۔

صدر خیبر یونین آف جرنلسٹ کے مطابق یہ وہ واقعات ہیں جو میڈیا پر رپورٹ ہو جاتے ہیں تاہم ایسے بے شمار کیسز ہیں جو میڈیا پر رپورٹ نہیں ہوتے اس لیے ہماری خواہش ہے کہ خیبر پختونخوا میں بھی صحافیوں کے تحفظ کے لیے بل منظور کیا جائے اور اس سلسلے میں وہ گزشتہ دو سال سے مختلف اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے دو دفعہ کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جس میں حکومتی نمائندے اور صحافیوں نے شرکت کی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حکومتی نمائندوں کے سامنے اپنے مطالبات رکھے ہیں: "صوبے میں اس وقت نگران حکومت ہے۔ الیکشن کے بعد کے ایچ یو جے دوبارہ اس معاملے پر آواز اٹھائے گی اور اسمبلی سے اس بل کو منظور کرانے کی کوشش جاری رکھے گی۔”

ڈائریکٹر جنرل محکمہ اطلاعات خیبر پختونخوا محمد عمران نے بتایا کہ صوبائی حکومت صحافیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے جبکہ جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ کی منظوری کے لیے محکمہ اطلاعات کی طرف سے بھی کوششیں جاری ہیں کیونکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

انہوں نے بتایا: "ہم اب بھی تیار ہیں؛ صحافیوں کی تنظیم مذکورہ ایکٹ کی منظوری کے لیے ہم سے مشاورت کرے، اور تجاویز پیش کرے تاکہ جلد از جلد اس ایکٹ کو اسمبلی سے منظور کرایا جا سکے۔ ان کے بقول صوبائی حکومت نے ماضی میں بھی صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے جرنلسٹس انڈومنٹ فنڈ رولز کی منظوری دی تھی جس کے تحت دیگر معاوضوں کے علاوہ دہشت گردی کے واقعات میں جان گنوانے والے صحافیوں کے لواحقین کو دس لاکھ جبکہ کسی بھی وجہ سے معذور ہونے والے صحافی کو دو لاکھ روپے مالی امداد دی جائے گی۔

پاکستانی صحافیوں کے خلاف حملوں میں اضافہ

صحافیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی عالمی ایوارڈ یافتہ تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صحافیوں، میڈیا پروفیشنلز اور میڈیا تنظیموں کے خلاف تشدد کے واقعات میں 60 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں پاکستان میں صحافیوں، میڈیا پروفیشنلز اور مختلف میڈیا تنظیموں پر حملوں اور انہیں دھمکانے کے 140 واقعات رونما ہوئے جو کہ سال 22-2021 میں رونما ہونے والے واقعات کے مقابلے میں 60 فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ ان واقعات میں اسلام آباد صحافیوں کے خلاف تشدد کے 56 واقعات کے ساتھ پہلے، پنجاب 35 کیسز کے ساتھ دوسرے جبکہ سندھ 23 کیسز کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔ یعنی وفاقی دارالحکومت صحافیوں کے لئے زیادہ خطرناک رہا۔

فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے پاکستان میں آزادی صحافت کی خلاف ورزیوں اور صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے ان واقعات کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان واقعات کی روک تھام کے لئے فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی صحافت پر حملے معلومات تک رسائی کے عمل کو روکتے ہیں خصوصاً جب سیاسی اور اقتصادی بحران میں عوام کو درست معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔

اقبال خٹک نے کہا کہ پاکستان ایشیا کا واحد ملک ہے جہاں سال 2021 میں صحافیوں کے تحفظ بارے قانون سازی کی گئی مگر ڈیڑھ سال بعد بھی وفاق اور سندھ میں مذکورہ قانون پر عمل درآمد ہو سکا نہ ہی کسی ایک صحافی کی بھی مدد کی گئی جس کی وجہ سے صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں یکم مئی 2022 سے 31 مارچ 2023 تک، 11 ماہ میں صحافیوں کے خلاف دھمکیوں اور حملوں کے 140 واقعات رونما ہوئے، یعنی ہر ماہ اوسطاً 13 کیسز ریکارڈ کئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ صحافیوں پر حملوں کے 51 کیسز ریکارڈ کئے گئے جن میں 21 حملوں میں صحافیوں کے آلات، ان کے گھروں یا دفاتر کو نقصان پہنچا، قتل کی دھمکیوں سمیت آن لائن یا آف لائن دھمکیوں کے 14 کیسز ریکارڈ کئے گئے۔

اقبال خٹک کے مطابق رواں سال کے دوران سب سے زیادہ پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اخباراو و رسائل سے منسلک 26 صحافیوں کو ٹارگٹ کیا گیا جبکہ ڈیجیٹل میڈیا کے 15 صحافیوں کو دھمکیاں دی گئیں۔ علاوہ ازیں خواتین میڈیا پروفیشنلز بشمول ایک خواجہ سرا صحافی سمیت آٹھ خواتین صحافیوں اور میڈیا پرفیشنلز کو بھی نشانہ بنایا گیا جن میں سے ایک خاتون صحافی کو سیاسی جلسے کی کوریج کے دوران مارا پیٹا بھی گیا۔

اقبال خٹک نے وزیر اعظم شہباز شریف پر زور دیا کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق فیڈرل پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 کے تحت وفاقی سطح پر کمیشن قائم کریں تاکہ صحافیوں کے تحفظ کے لئے بنائے گئے قانون سے صحافی استفادہ کر سکیں۔

نوٹ: یہ سٹوری پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) فیلو شپ کا حصہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button