صحت
-
”والدہ دل کی مریضہ ہیں اس لئے انہیں کورونا کی ویکسین نہیں لگوائی”
افواہوں میں سے ایک افواہ یہ بھی پھیلائی گئی کہ ویکسین لگانے کے بعد دل کے امراض پیدا ہوتے ہیں اور جسم میں خون جم جانے کی وجہ سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
مزید پڑھیں -
کورونا ویکسین: کوئی کسی مائع میں چِپ کیسے لگا سکتا ہے؟
ہمیں ان افواہوں پر دھیان نہیں دینا چاہیے کیونکہ افواہیں پھیلانا ہم لوگوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔ ڈاکٹر محمد شہریار اشرف
مزید پڑھیں -
”جو ویکسین لگوائے گا وہ دو سال کے اندر اندر مر جائے گا”
کوئی سائنسی تحقیق یہ ثابت نہیں کرتی کہ ویکسین لگوانے سے دو سال بعد موت واقع ہو سکتی ہے۔ وزارت صحت حکومت پاکستان
مزید پڑھیں -
”کورونا ویکسین سے خواتین کی ماہواری بے قاعدگی کا شکار ہو سکتی ہے”
کورونا ویکسین کسی بھی قسم کی بیماری پر اثرانداز نہیں ہو سکتی ہاں البتہ اگر تیز بخار ہو تو اس دوران ویکسین نہیں لگانی چاہئے۔ ڈاکٹر گل نگار
مزید پڑھیں -
”تم امید سے ہو، ویکسین مت لگوانا ورنہ حمل ضائع ہو جائے گا”
ویکسین جب بنی تو لوگ اس سے بھی خائف رہنے لگے کیونکہ اس متعلق بھی مختلف قسم کی افواہیں گردش میں تھیں ایسے میں جو حاملہ خواتین تھیں ان کو بھی خدشات لاحق ہونے لگے۔
مزید پڑھیں -
کورونا ویکسین سے خواتین کی صحت متاثر ہوتی ہے، اس بات میں کتنی صداقت ہے؟
2021 کے آغاز میں جب کورونا ویکسین کی خوارک کا عمل شروع ہوا تو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ویکسین کے حوالے سے طرح طرح کے بے بنیاد اور منفی پروپیگنڈا شروع ہو گئے۔
مزید پڑھیں -
”ویکسین کے بعد آپ کی داڑھی نکل آئی یا آپ مگرمچھ بن گئے تو یہ آپ کا مسئلہ ہے”
برازیل کے صدر کورونا وائرس کو ایک معمولی زکام قرار دیتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ ویکسینیشن کی عوامی مہم کا اجرا کر رہے تھے، انہوں نے واضح کیا کہ وہ ویکسین نہیں لگائیں گے۔
مزید پڑھیں -
افغان پناہ گزینوں کو پشاور کے ہسپتالوں سے کیا شکایت ہے؟
ان افغان پناہ گزینوں کو زیادہ مشکلات پیش آ رہی ہیں جو گذشتہ سال افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد پاکستان ہجرت کر کے آئے ہیں۔
مزید پڑھیں -
”زچہ بچہ کی جان خطرے میں ہے آپریشن کے پیسے جمع کرائیں”
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ سی سیکشن کے ذریعے دنیا میں آتا ہے۔
مزید پڑھیں -
پشاور: مہنگائی و بے روزگاری کے شکار نئے افغان پناہ گزین کس حال میں ہیں؟
سائرہ سلیم دس افراد پر مشتمل اپنے خاندان کی واحد کفیل اور کابل کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ وابستہ تھیں تاہم یہاں آنے کے بعد ان کا یہ واحد زریعہ آمدن بھی چِھن چکا ہے۔
مزید پڑھیں