سیاست

عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی کا ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی، وجہ کیا ہے؟

عثمان دانش

وفاقی حکومت میں اتحادی جماعتیں عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علماء اسلام (ف) کی اختلافات ایک بار پھر شدت اختیار کر گئے جس کی وجہ گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی کو قرار دیا جا رہا ہے۔

ترجمان عوامی نیشنل پارٹی ثمر ہارون بلور نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”مولانا صاحب سمدھی کے علاوہ کوئی رشتہ دار بھیج دیں تو گورنر ہاوس کے بریف کیسز نظر آ جائیں گے، عوام پر حکمرانی حلوہ نہیں کہ کھایا جائے صرف اے این پی ہی نہیں پورا اتحاد کہہ چکا ہے کہ گورنر ہاؤس میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔”

یاد رہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے علاوہ دیگر اتحادی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی بھی گورنر کےخلاف شکایتیں کر رہی ہیں۔

ثمر ہارون بلور نے کہا ہے کہ کیا تمام جماعتیں غلط اور صرف جے یو آئی درست ہے؟ گورنر ہاؤس میں باپ بیٹا اتحادی جماعتوں کے کونسلرز کو سٹریٹ لائٹس کی رشوت دے رہے ہیں جبکہ اے این پی اس قوم کے لیے جانیں دینے والی پارٹی ہے، 30 لائٹس تو کیا 30 ارب روپے بھی ہمارا ضمیر خرید نہیں سکتا۔

ثمر بلور نے جے یو آئی کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ تمیز اور تہذیب اگر سکھانی ہے تو گورنر ہاؤس میں بیٹھے لوگوں کو سکھائی جائے، بڑی کرسی پر بیٹھ کر تہذیب سے عاری لوگوں کی حمایت نہیں کرسکتے، باچاخان اور ولی خان کے سیاسی وارث کا قد پوری دنیا جانتی ہے جبکہ ولی باغ سیاسی مدرسہ ہے جہاں لوگ سیاست سیکھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ انتخابات میں واضح ہوجائے گا کہ کون کہاں تک محدود ہے، اے این پی اپنے اصولی موقف اور عوامی خدمت کی بنیاد پر عوام میں نکل چکی ہے صوبے کے پرامن سیاسی ماحول کو خراب کرنے کے پیچھے گورنر ہاؤس کی سازش ہے۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے مولانا فضل الرحمان کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ” یہ پختونخوا کی حکومت ہے، کوئی حلوہ نہیں کہ ہر کوئی کھائے، گورنر کے پی جے یو آئی کے لیے باعث شرمندگی بن رہا ہے۔”

ایمل ولی خان کے بقول” میری غلطی ہے کہ غلام علی کی حمایت کی اور میں اپنی یہ غلطی مانتا ہوں، دین کا لباس اوڑھے ملک کا جو حشر کیا ہے ایک دن اس کا جواب دینا ہوگا۔”

دوسری جانب جمیعت علماء اسلام کے ترجمان عبدالجیل جان نے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کے بیانات پر کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں شکست کے بعد اب ایمل ولی کے سر پر جنرل الیکشن میں شکست کا خوف سوار ہے، جے یو آئی قائدین کے خلاف بیانات دیکر ایمل ولی اپنا قد بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی چارسدہ اور مردان تک محدود جماعت ہے اور اب ان اضلاع سے بھی فارغ ہو چکی ہے۔

عبدالجلیل جان کا کہنا ہے کہ ”اگر ہمت ہے تو استعفیٰ دیکر صدارت سنجیدہ شخص کے حوالے کر دیں، قوم جاننا چاہتی ہے کہ خیبر پختونخوا میں خوشگوار سیاسی ماحول کو کس کے اشارے پر خراب کیا جا رہا ہے۔”

دو اتحادی جماعتوں کا ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے پر سنیئر صحافی اور ہم نیوز کے بیورو چیف طارق وحید کا کہنا ہے کہ جب سے نگران حکومت نے ذمہ داری لی ہے تو اس وقت سے یہ باتیں ہو رہی ہے کہ گورنر ہاؤس کی طرف سے حکومتی امور میں مداخلت ہو رہی ہے اور پوسٹنگ ٹرانسفر، مختلف منصوبوں کی منظوری اور دیگر امور میں گورنر خیبر پختونخوا غلام علی کنٹرول کررہے ہیں۔

طارق وحید کے بقول حکومتی امور میں گورہر کی مداخلت کی بنیادی وجہ بطور نگران وزیراعلی علی اعظم خان ہے، ان کی صحت ایسی ہے کہ حکومت کی بھاری بھرکم ذمہ داری اٹھانے کی اجازت ان کو نہیں دیتی اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گورنر غلام علی حکومتی مشینری اور زیادہ تر معاملات گورنر ہاؤس سے کنٹرول کررہے ہیں۔ ان کے مطابق صوبائی کابینہ میں شامل وزراء بھی زیادہ تر جے یو آئی سے تعلق رکھتے ہیں اور گورنر غلام علی کی سفارش پر ان کی تقرری کی گئی ہے اس وجہ سے وزراء کے بھی جتنے کام ہوتے ہیں وہ وزیراعلی کی طرف کم اور گورنر ہاؤس کی طرف زیادہ دیکھتے ہیں۔

طارق وحید نے بتایا کہ گورنر غلام علی ایک متحرک سیاستدان کے ساتھ عوامی گورنر کے طور پر بھی سامنے آئے ہیں گورنر ہاؤس کے ساتھ صوبائی حکومت کو بھی انھوں نے سنبھالا ہوا ہے۔

خیال رہے کہ عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی کی چپلقش ابھی سے نہیں بلکہ اس دن سے شروع ہوئی ہے جب گورنر خیبر پختونخوا کے نام کا انتخاب ہو رہا تھا، وزیراعظم شہبازشریف اور سابق صدر آصف علی زرداری چاہتے تھے کہ گورنر خیبر پختونخوا عوامی نیشنل پارٹی سے ہو اور اس کے لیے میاں افتخار حسین کے نام پر اتفاق ہوگیا تھا لیکن پھر جے یو آئی نے مخالفت کی اور مولانا فضل الرحمن نے گورنر جے یو آئی سے لگانے کی فرمائش کی جس کے بعد اے این پی بھی اس پیشکش سے پیچھے ہٹ گئی اور حاجی غلام علی گورنر خیبر پختونخوا بن گئے لیکن عوامی نیشنل پارٹی نے غلام علی کو دل سے گورنر قبول نہیں کیا۔

طارق وحید نے بتایا کہ ابھی جو اختلافات سامنے آرہے ہیں اس کی بنیادی وجہ سیاسی مفادات ہے کیونکہ گورنر خیبر پختونخوا بیشتر پوسٹنگ ٹرانسفر اور جو ترقیاتی منصوبے ہے ان کی منظوری خود دیتے ہیں یا گورنر کی سفارش پر وزیراعلی اعظم خان وہ امور انجام دے رہے ہیں اس بنا پر عوامی نیشنل پارٹی کے مفادات پر ضرب پڑرہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2023 ملک میں جنرل الیکشن کا سال ہے اس لیے اے این پی بھی چاہتی ہے کہ بیشتر علاقوں میں ان کے مرضی کے بیوروکریٹ تعینات ہو لیکن گورنر اس میں مداخلت کرتا ہے اور گورنر اپنے جماعت کے ہمددر یا حمایت یافتہ بیوروکریٹ کو تعینات کرتا ہے تاکہ ان کی جماعت کو الیکشن میں فائدہ ہو اس وجہ سے دونوں جماعتوں کے درمیان بہت عرصے سے اختلاف چلے آرہے تھے اور اب کھل یہ سیاسی اختلافات کے شکل اختیار کرگئے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button