خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

جب 12 سال کی لڑکی سے ادھیڑ عمر شخص نے اولاد کے لئے شادی رچالی

 

‘میرے والدین نے صرف 12 سال کی عمر میری شادی پہلے سے شادی شدہ ادھیڑ عمر کے شخص سے کروادی کیونکہ والدین بہت غریب تھے اور جلد سے جلد مجھ سے میری 6 دیگر بہنوں کے بوجھ سے آزاد ہونا چاہتے تھے’
ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والی گل بی بی کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کی پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہیں تھی اس لئے ان سے دوسری شادی کیلئے ان کے والدین سے رشتہ مانگا جو کہ انہوں نے فوراؑ قبول کرلیا۔
‘شادی کے بعد مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے، میری ساس اور سوتن ہر وقت مجھ سے لڑتی جگڑتی مجھے باتیں سناتی تھی کہ اپکو کویی کام نہیں آتا صرف کھانے کے لیے یہاں آئی ہو’ گل بی بی نے پرانا وقت یاد کرتے ہوئے بتایا۔
گل بی بی نے کہا کہ انکی شادی کے کچھ عرصہ تک اولاد نہیں تھی تو گھر والے کہتے واپس چلی جاو اپنے گھر ہم نے تو اولاد کے لیے آپ کو بیاہا ہے میرا شوہر بھی کچھ نہیں کہتا تھا ان لوگوں کو جب میرے ساتھ یہ ظلم ہو رہا تھا میں سب کچھ برداشت کر رہی تھی سارا ظلم اپنے دل پہ لے رہی تھی، کچھ وقت گزر گیا اس دوران میری بیٹی پیدا ہوئی اس وقت ساس اور سوتن نے کہا ہمیں بیٹی نہیں چاہیے بیٹا ہونا چاہیے اب کیا تھا میری چار بیٹیاں اور بھی پیدا ہو گئی یہ میرے لیے اللہ کی طرف سے امتحان تھا اس کے بعد ظلم اور بھی بڑھ گیا تھا کیونکہ لڑکیاں پیدا ہو رہی تھی۔
چار لڑکیوں کے بعد اللہ نے مجھے ایک بیٹا بھی دیا جو ابھی بہت چھوٹا ہے اب میری بچیاں ایک دوسرے کے گھروں میں کام کاج کرتی ہے میں خود بھی بہت محنت کرتی ہوں لیکن بہت مشکل سے گزارا ہوتا ہے کیونکہ شوہر بیمار پڑا ہے اور بچوں کا بوجھ مجھ پہ ہے۔
‘اب گھر خرچ کے علاوہ میرے خاوند کی دوائیوں اور ڈاکٹر کے پاس لے جانا سب میں کرتی ہوں اسکے علاوہ جو سوتن میرے ساتھ ظلم کرتی تھی اسکی خدمت بھی میں کرتی ہوں’ گل بی بی نے کہا۔
خیبرپختونخوا میں شادی کی کم سے کم عمر کی حد کیا ہے؟
خیبرپختونخوا میں قانون کے تحت لڑکی کی شادی کے لیے کم سے کم عمر کی حد 16 سال جبکہ لڑکے کے لیے 18 سال ہے، لیکن گل بی بی کی طرح اب بھی کئی لڑکیاں کم عمری ہی میں بیاہ دی جاتی ہے۔
لڑکی کی شادی کے لیے کم سے کم عمر 18 سال کرنے کے لیے صوبائی اسمبلی کی خواتین ممبرز کی کوکس کمیٹی نے گزشتہ سال جولائی میں اس حوالے سے ایک قرارداد اسمبلی سے منظورکروائی ہے لیکن ابھی تک اس کو قانونی شکل نہیں دی گئی۔
حکومتی پارٹی کی ایم پی اے رابعہ بصری کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے بہت جلد قانون سازی ہوجائے گی۔ ‘ اس حوالے سے ہماری اسمبلی میں بات چیت چل رہی ہے کہ لڑکی کی شادی کے لیے 18 سال عمر آئیڈیل ہے لیکن اسلامک آئیڈیالوجی نے اس حوالے سے کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے تاہم پھر بھی اس پر بحث جاری ہے کہ شادی کی عمر 18 سال کردی جائے’
خیبرپختونخوا میں موجود میرج رسٹریکشن ایکٹ کے مطابق اگر کوئی شخص 16 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی کرلے تو اس کو ایک ماہ تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ مردان سے تعلق رکھنے والے وکیل کفایت اللہ کا کہنا ہے کہ موجودہ قانون پر بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ پختون معاشرے میں لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کا فیصلہ والدین کرتے ہیں تو جب والدین شادی کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایسے میں میرج رسٹریکشن ایکٹ کی بات بھی درمیان سے ختم ہوجاتی ہے اور اس پر عمل درآمد والا قصہ بھی تمام ہوجاتا ہے۔

کم عمری کی شادی کا جسمانی صحت پر اثرات
کم عمری کی شادی نے نہ صرف گل بی بی سے اس کی خوشیاں چھینی ہے بلکہ مردان سے تعلق رکھنے والی ماریہ بھی بچپن کی شادی کی وجہ سے شدید ذہنی اور جسمانی پریشانیوں میں مبتلا ہے۔
ماریہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے بچپن میں اتنا علاج کیا کہ اب انکی اولاد بھی نہیں ہورہی اور ساس انکو دھمکیاں بھی دے رہی ہے کہ اپ کے بچے نہیں ہیں تو ہم اپنے بیٹے کی دوسری شادی کریں گے اگر انہوں نے اپنے بیٹے کی دوسری شادی کی تو وہ کیا کریں گی۔
ماریہ کے مطابق اس کے بچے پیدا نہ ہونے کی وجہ کم عمری میں شادی کرنا ہے کیونکہ ان کی 13 سال میں شادی ہوئی تھی اور اس کے بعد اتنا علاج کیا ہوا ہے کہ اب ان کے جسم پر اثرات پڑے ہیں اب ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ ان کے حملہ نہ ہونے کی بڑی وجہ کم عمری میں شادی کرنا ہے۔
جس طرح ماریہ کم عمر میں شادی کرنے پر رو رہی ہیں اس طرح ماریہ کی ماں بھی اپنے اس فیصلے پر پیشمان ہے۔
ماریہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ جب ماریہ کی منگنی ہوئی تھی اس وقت ہم بہت غریب تھے ماریہ کی کم عمر میں ہی منگنی ہوئی تھی ہماری اتنی بساط نہیں تھی کہ ہم اپنی بیٹی کو دو تین سال رکھتے اس وقت ماریہ کی ساس کہہ رہی تھی کہ ہم سب کچھ کریں گے اس کے لیے بس اپ لوگ ہمیں ماریہ ڈولی میں بٹھادو۔
‘جب ماریہ کی شادی ہوئی تب سے لے کر اب تک ان کا بہت علاج کیا گیا لیکن ماریہ کا گود نہیں بھرا اب ہم سمجھ گئے کہ 18 سال سے پہلے بیٹی کی شادی نہیں کرنی چاہئے لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا’ ماریہ کی ماں نے پشیمان ہوکر کہا۔
مردان کی صائمہ کا قصہ بھی ماریہ سے الگ نہیں ہے، صائمہ کی شادی اس وقت کردی گئی جب اس کے کھیلنے کی عمر تھی، کم عمری کی شادی نے نہ صرف صائمہ کے جسمانی صحت پر اثر ڈالا بلکہ اس سے اسکی ذہنی صحت بھی متاثر ہوئی ہے۔
صائمہ کا کہنا ہے کہ جب اس کی شادی ہوئی تو اس وقت اس کو گھر کے کام کاج بھی نہیں آتے تھے جس کی وجہ سے اس کے مشکلات میں اضافہ ہوا۔ ‘میری شادی اس وقت ہوئی جب میری عمر 15 سال تھی اور اب میں 18 سال کی ہوں، میری ساس مجھے بہت تنگ کرتی تھی، میں رات دن روتی تھی، شوہر کا رویہ بھی میرے ساتھ ٹھیک نہیں تھا لیکن اب میری ایک بچی ہے جس کے بعد اب شوہر کا رویہ تھوڑا بہت ٹھیک ہوگیا ہے، گھر والے میرے کام میں کیڑے نکالتے تھے’

کم عمری میں شادی سے کئی ایک بیماریاں لاحق ہوسکتی ہے
مردان میں ڈیوٹی کرنے والی گائناکالوجسٹ امنہ ہلال کا کہنا ہے کہ کم عمر میں لڑکیوں کی شادی ان کے ذہنی اور جسمانی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ اثرات اکثر عمر بھر کے لئے رہ جاتے ہیں۔
امنہ ہلال کے مطابق اگر لڑکیاں کی کم عمر میں شادی کرنے کی وجہ سے ماں بن جائے تو اس میں جھٹکے اور بلڈپریشر ہائی ہو جاتا ہے ان کو شوگر کی بیماری لاحق ہوسکتی ہے اور وہ ڈپریشن میں بھی جا سکتی ہیں۔
یہ قصہ صرف گل بی بی، ماریہ اور صائمہ کا نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں قریبا ہر دوسرے یا تیسرے گھر میں ایسا ہوتا ہے۔ نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمری میں شادی کرنے والوں کو دوسروں کی نسبت گھریلو مسائل کا سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے۔
کم عمرکی شادیوں کا نہ صرف لڑکیوں کی جسمانی صحت پر اثر پڑتا ہے بلکہ ماریہ کی طرح کئی لڑکیاں اس کی وجہ سے نفسیاتی بیماریوں کا بھی شکار ہوتی ہے۔
کلینکل سئکالوجسٹ ڈاکٹر صفیا کہتی ہے کہ ذہنی بیماری کی وجہ سے گھر میں لڑائی بھی شروع ہو جاتی ہیں جن لڑکیوں کی کم عمر میں شادی ہوتی ہے تو زیادہ تر وہ لڑکیاں ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں ان کا بچپن اور کھیل کھود ان پر اچانک بند ہو جاتا ہےدل میں خفا ہونا اور اس طرح ان کا یہ خوف وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ جاتا ہے ان کی وہ سوچ نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ سمجھ سکتی ہیں کہ انکی شادی ہوئی ہے۔
نابالغ بچوں کی شادی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے
اگرچہ کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے قانون موجود ہے اور اس میں بہتری کے لیے مزید اقدامات بھی اٹھائے جارہے ہیں تاہم پھر بھی زیادہ تر لوگ کم عمر لڑکی سے شادی کو دین اسلام کے مطابق دیکھتے ہیں اور اس حوالے سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کی 9 یا 11 سال کی عمر میں شادی کی مثال دیتے ہیں لیکن بعض علماء کرام اور سکالرز کے مابین اس حوالے سے اختلاف بھی موجود ہے۔
خیبرپختونخوا یوتھ اسمبلی کے مذہبی امور کے وزیر اور جامعہ دارالعلوم الحقانیہ نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے صاحبزادہ منیب الرحمان کا کہنا کہ نابالغ بچوں کی شادی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز خود اس حوالے سے پوچھیں گے کہ نابالغ بچی کی شادی کیوں کی گئی تھی۔
گل بی بی نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ کم عمری کے حوالے قانون سازی کو جلد ازجلد عملی جامہ پہنایا جائے تاکہ کم عمری کی شادی پر پابندی لگ جائے اور باقی لڑکیوں کی زندگی ان جیسی نہ گزرے۔

اس سٹوری کے لیے صوابی سے شیبا فارس اور مردان سے ماہ نور اور سدرا نے تفصیلات فراہم کی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button