فیچرز اور انٹرویوقبائلی اضلاع

‘دھماکے میں میرے دو بچے دم توڑ چکے تھے اور بیٹی کہہ رہی تھی میں بھی چھوڑ کر جا رہی ہوں’

 

رضیہ محسود

‘جنوبی وزیرستان تنگی بدینزائی میں یکم جون 2021 کو عصر کے ٹائم اچانک دھماکے کی آواز سنائی دی میں دوکانداری کر رہا تھا کہ دھماکے کی آواز نے لرزا دیا اور کسی نے آواز دی کہ شمس بھائی آپ کے گھر کے ساتھ دھماکے کی آواز آئی ہے میں نے پریشانی میں دوکان بند کیا اور گھر کی طرف رخ کیا یہ سوچتے ہوئے کہ کیا ہوا ہوگا، میں راستے میں ہی تھا کہ بچوں کو دیکھا کہ وہ خون میں لت پت ہیں اور لوگوں نے ان کو آٹھایا ہوا ہے’

یہ دو بچوں کے گرنیڈ دھماکے سے شہید ہونے والے والد شمس الدین کے خیالات ہے۔ ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران شمس الدین نے بتایا ‘میری کچھ سمجھ میں نہیں ارہا تھا اتنے میں میں نے اپنے بھائی کو دیکھا جس نے میری 7 سالہ بیٹی کو گود میں اٹھایا ہوا ہے اور وہ بھی زخمی حالت میں ہے جب میں قریب گیا تو میری بیٹی خون میں لت پت تھی اور میری آواز سننے پر مجھ سے کہنے لگی کہ پاپا میری آنکھیں کھولو میں نے جب دیکھا کہ اس کی آنکھیں زخمی حالت میں ہے تو میں نے بچی کو دلاسہ دیا کہ بیٹا آنکھیں نہیں کھولنا۔ بیٹی نے کہا کہ پاپا میں آپ کو دیکھنا چاہتی ہوں میں نے کہا کہ بیٹی آپ کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیگی پھر آپ مجھے دیکھ سکو گی اب آپ نے آنکھیں بند ہی رکھنی ہے کھولنے کی بے کار کوشش نہ کرو تکلیف ہوگی، بیٹی نے روتے ہوئے انداز میں کہا کہ پاپا میں آپ کو چھوڑ کے جارہی ہوں، یہ سننا تھا کہ پیروں تلے سے زمین ہلنے لگی۔

انہوں نے کہا کہ پھر بیٹی کو ہسپتال لے جایا گیا اپنے ایک بیٹے کو دیکھا کہ وہ دم توڑ چکا ہے اور بہت بری طرح سے اس کا جسم اور چہرہ دھماکے سے خراب ہوا ہے اس کی حالت دیکھنے کے قابل نہیں تھی یہ دیکھنا تھا کہ اپنے ایک اور چھوٹے بیٹے جس کی عمر 11 سال تھی اس کو بھی بہت خراب حالت میں شہید ہوتے ہوئے دیکھا اور ایک میرا بھتیجا بھی ان میں شامل تھا جو کہ اسی دن ڈیرہ اسماعیل خان سے وزیرستان آیا تھا جس کی عمر 7 سال تھی ان بچوں کے ساتھ تقریبا سب سات بچے اور بچیاں تھی جس میں کچھ ان شہید بچوں کے خون لگنے کی وجہ سے خون میں لت پت تھے۔ یہ ایک قیامت کا سماں تھا کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا میں اس وقت یہ سب کچھ دیکھ کہ پاگل ہوگیا تھا میری سمجھ بوجھ کی صلاحیت تقریبا ختم ہو چکی تھی ان سات بچوں میں تین موقع پر شہید ہوئے تھے دو بری طرح زخمی تھے جبکہ باقی ان شہید بچوں کے خون لگنے کی وجہ سے زخمی دکھائی دے رہے تھے جس کی وجہ سے کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ کون کتنا زخمی ہے اور کون نہیں۔

شمس الدین نے ٹی این این کو بتایا کہ اس سانحے کے وقت وہ مکمل پاگل ہوگیا تھا اور جب بچوں کی یہ حالت دیکھی تو غم وغصے کی حالت میں قریب موجود آرمی کے مورچے میں موجود آرمی کے سپاہیوں کو بھی سنا دی کہ میں تین بار سے زیادہ یہ شکایت درج کروا چکا ہوں کہ اس علاقے سے لینڈ مائنز کا صفایا کیا جائے مگر آپ کی طرف سے طرف یہ کہہ کر جان خلاصی کی جارہی ہے کہ ہماری ٹیم آئیگی وہ ان کا صفایا کریگی مگر اب تک نہ آپ کی ٹیم آئی اور نہ ان مائنز کا صفایا ہوا۔

شمس الدین نے بتایا کہ اس سانحے کے بعد علاقے کے لوگوں نے کہا کہ ان بچوں کو دفنانا نہیں ہے بلکہ ان بچوں کے ذریعے ہم یہ دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ یہ جو ہوا سو ہوا اب مزید ہم بچوں کی لاشیں نہیں دیکھ سکتے اس علاقے میں مائنز کا صفایا ہونا ضروری ہے۔شمس الدین نے کہا کہ میں نے علاقے کے لوگوں سے کہا کہ میں اس وقت آدھا پاگل ہو چکا ہوں مجھے کچھ سمجھ نہیں ارہی جو بھی کرنا ہے جیسے کرنا ہے وہ آپ لوگ میرے خاندان والوں سے مشورہ کر کے کر سکتے ہیں۔ خاندان والوں سے علاقے کے لوگوں نے مشورہ کیا اور پھر مکین میں یو ماسید کے نام سے دھرنا دیا اور بچوں کی لاشوں کو وہاں پر رکھ دیا اور مطالبات رکھے ۔3 جون کو اس دھرنے میں اے سی اور باقی معتبر افراد نے شرکت کی اور دھرنے کو ختم کرنے کے لئے ایک معاہدہ کیا گیا جو کہ 7 افراد کی ایک علاقائی کمیٹی پر مشتمل ذمہ دار افراد نے اس معاہدے پر باقاعدہ دستخط کئے اور میتوں کو دفنایا گیا ۔اس کمیٹی میں موجود سات افراد کے نام درج ذیل ہے۔
1ملک سیف الرحمان
2حاجی افسر خان
3ملک رومان
4ملک خانود خان
5صدر شمس
6بلال خان
7عالم شیر
یہ ذمہ داران محسود کمیٹی کے مشران تھے جن کی موجودگی اور ذمہ داری میں معاہدہ ہوا اور دھرنا ختم کیا گیا
مورخہ 3 جون 2021 کو محسود قوم اور سول انتظامیہ کے مابین جو معاہدہ ہوا اس میں درج ذیل امور پر فیصلہ کیا گیا
1 ۔ایک شہید کو UXO Compensation/PDMA pakage ٹوٹل سات لاکھ روپے دئیے جائینگے
2۔ہر زخمی کو ٹوٹل 8 لاکھ FDMA سروے کی صورت میں دئیے جائینگے
3۔آبادی کے اوپر ڈرون کو استعمال نہیں کیا جائیگا
4۔گاوں کے اندر چیک پوسٹ کو مشران کے مشورے سے کسی دوسری مناسب جگہ شفٹ کیا جائیگا
5۔آرمی کی طرف سے لینڈ مائنز کی صفائی کیلئے ٹیمیں تشکیل دی جائیگی جوکہ موجودہ معلومات اور مشران کی نشاندہی کے مطابق کام کریں گی
6۔بارود کی موجودگی کے بارے میں علاقے کے مشران لوگ فوج / انتظامیہ کو آگاہ کریں گے اور بچوں کو بھی اس بارے میں آگاہی دینگے
یہ معاہدہ کے چیدہ چیدہ نکات تھے
شمس الدین نے ٹی این این کو بتایا کہ معاہدہ ہوگیا اس کے بعد میں نے گھر میں اس سانحے کے وقت موقع پر موجود بچوں سے پوچھا کہ یہ دھماکہ کیسے ہوا ؟ تو بچوں نے بتایا کہ جب ہم بکریاں واپس گھر لانے کے لئے گئے تو راستے میں گرینڈ جوکہ بارش ہونے کی وجہ سے صاف نظر ارہا تھا وہ ملا اور شہید ہونے والے بچوں میں سے ایک نے اسے پرفیوم سمجھ کر اٹھایا اور اسکے ساتھ کھیلنے لگے ایک نے کہا کہ پھینک دو پھر اس کو پھینک دیا اور اس پر پتھر برسائے گئے پر بعد میں ایک بچے نے پھر سے اسے آٹھایا اور دوسرے بچوں سے کہنے لگا کہ سب آو کہ سب پر پرفیوم سے سپرے کروں
ان بچ جانے والے بچوں اور بچیوں نے بتایا کہ ہم کافی دور تھے اور ہم بھی بھاگ کر جارہے تھے ان کے پاس یہ کہہ کر کہ توڑا صبر کرو جب ہم قریب آجائے تو پر سپرے کر لینا کہ اتنے میں اس بچے نے اس کا ڈھکن ہٹایا اور زوردار دھماکہ ہوا جس میں وہ بچے وہی پر شہید ہو گئے اور ہمیں ان کا خون لگ گیا اور کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا ہوا ہمیں ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے ہم بھی زخمی ہو گئے ہیں اور ہم بھی مر جائینگے۔

شمس الدین نے بتایا کہ وہ بچے اور بچیاں جو اس موقع پر موجود تھے وہ ذہنی طور پر کافی ڈر گئے ہیں اور معمولی سے آواز سے سہم جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔شمس الدین نے کہا کہ میری بیٹی جو زخمی تھی اور کہہ رہی تھی کہ پاپا میں آپ کو چھوڑ کر جارہی ہوں وہ اللہ کے کرم سے اب ٹھیک ہے بس اسکے چہرے پر زخم کے گہرے نشانات ہیں اور اس کی آنکھ کا آپریشن کیا گیا اور اسکی آنکھیں بھی آندھی ہونے سے بچ گئی ہے ۔شمس الدین کی بھابھی جس کا سات سالہ بیٹا اس دھماکے میں شہید ہوا اس نے بتایا کہ میں اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان میں تھی اور میرا بیٹا گرمی سے تنگ تھا اور اپنے علاقے وزیرستان جانا چاہتا تھا اور اسی دن جب وہ وزیرستان گیا تو راستے میں اس سے صبر نہیں ہو رہا تھا اتنا بے چین تھا جانے کو کہ اپنے چاچا سے بار بار کہہ رہا تھا کہ چاچا گاڑی کو تیز چلائیں باقی گاڑیاں کتنی تیز چل رہی ہے وہ اتنا بے چین تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ گاڑی کو اٹھا کہ وزیرستان میں رکھ دیا جائے ۔شہید بچے کی والدہ نے بتایا کہ یہ واقع عصر کے ٹائم ہوا اور ہمیں رات کو خبر ملی اور ہم رات کو ہی ڈیرہ اسماعیل خان سے نکل آئے ۔پورے راستے میرا برا حال تھا سفر اتنا تکلیف دہ تھا کہ شاید مرنے کے بعد میں یہ تکلیف بھول جاؤں ۔شہید بچے کی والدہ نے بتایا کہ مجھے یہ علم نہیں تھا کہ وہ شہید ہو چکا ہے اتنا پتہ تھا کہ وہ زخمی ہوا ہے اور بچے کی دادی کو اس کے بارے میں علم نہیں تھا اس کو اپنے دو پوتے کے بارے میں علم تھا اور وہ بھی میرے ساتھ تھی جب گھر پہنچے اور دیکھا کہ تین جنازے پڑے ہوئے ہیں تو قیامت کا سا سماں تھا ہم پر ۔مرنا تو سبھی کو ہے مگر بچوں کی دھماکے کی وجہ سے خراب حالت نے ہمیں مزید خراب کردیا۔

شہید بچے کی والدہ کی آنکھوں میں آنسو اور درد بھری آواز اسکے دردو غم کا اشارہ دے رہی تھی اور یہ واقع بتاتے ہوئے جیسے وہ اس سانحے کے وقت میں چلی گئی ہو ۔مزید اس سے بولا نہیں جارہا تھا اور خاموش ہو گئی۔شہید بچوں کی چاچی نے بتایا کہ اس وقت بچے بہت خوش تھے اور انہوں نے چاول کھانے کی فرمائش کی اور میں نے بچوں کے لئے ان کی فرمائش پر چاول پکانے لگی اور وہ باہر کھیلنے گئے اور قریب سے بکریوں کو واپس گھر لانے لگے کہ یہ واقع پیش آیا اور بچوں کی فرمائش پر پکائے ہوئے چاول تین دن تک اسی حالت میں دیگ میں ہی پڑے رہے اور کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔

شہید بچوں کی چاول کھانے والی ان کی فرمائش دل میں ارمان بن کر رہ گئی ہے اور اب چاول سے نفرت ہونے لگی ہے کیونکہ ان بچوں کا کافی دل کر رہا تھا چاول کھانے کا مگر شہادت ان کا مقدر بنی۔ چاچی بھی روتے ہوئے خاموش ہوگئی اور کمرے میں سناٹا چھاگیا کسی کو کچھ بولنے یا مزید سوالات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔شہید بچوں کے والد سے بات کرتے ہوئے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے ہوئے تو اس نے کہا کہ نہیں ابھی تک تو ہمیں صرف دس لاکھ روپے ہی ملے ہیں اور باقی خو معاہدہ ہوا تھا وہ ابھی تک نہیں ملے۔ شمس الدین نے بتایا کہ ڈی سی جنوبی وزیرستان نے وعدہ کیا تھا کہ آپ کو ایک ہفتے کے اندر اندر امداد مل جائیگی مگر دو مہینے گزرنے کے باوجود بھی نہ امداد ملی اور نہ ہی علاقے میں اچھی طرح سے لینڈ مائنز کا صفایا کیا گیا ہے۔ شمس الدین نے یہ بھی بتایا کہ مجھے ایک ملک نے یہ بھی بتایا کہ آپ کو سات لاکھ شہداء پیکج میں سے پانچ لاکھ ہی ملے گے اور باقی دو لاکھ حکومت کے ہونگے کیونکہ یہ حکومت کی پالیسی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button