بلاگز

بھارت کو سلامتی کونسل کی صدارت ملنے پر پاکستان کے خدشات

عبداللہ یوسفزئی

سلامتی کونسل اقوام متحدہ کا مضبوط اور طاقتور بازو تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے ارکان دو حصوں میں تقسیم کئے گئے ہیں یعنی مستقل ارکان اور غیر مستقل ارکان، اول الذکر یعنی مستقل ارکان میں امریکہ، چین، روس، برطانیہ اور فرانس شامل ہیں جبکہ ثانی الذکر قسم کے ارکان ممالک کو ایک معینہ مدت تک کے لئے رکنیت دی گئی ہے تاہم ان غیر مستقل ارکان میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔ ان غیر مستقل ارکان ممالک کو رکنیت ووٹنگ کے ذریعے دی جاتی ہے اس لئے پچھلے سال بھارت کو رکنیت دینے کےلئے تمام رکن ممالک کی حمایت درکار تھی جس میں بیشتر ممالک بشمول پاکستان نے ووٹ دے کر بھارت کو سلامتی کونسل کا رکن بنایا۔

اب بھارت کو یکم اگست سے ایک مہینے کے لئے سلامتی کونسل کی صدارت سونپ دی گئی ہے- اس حوالے سے بھارت کچھ توقعات اورملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایشیاء بالخصوص برصغیر میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا سوچ رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کشمیر کو لے کر بھارت کی صدارت پر خوش نظر نہیں آرہا- ہم بھارت کے ترجیحات اور پاکستان کے خدشات کا ذکر کریں گے-

بھارت کو صدارت ملتے ہی دونوں جانب سے مسئلہ کشمیر پر اپنے اپنے موقف کا اظہار کیا گیا۔اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب ٹی ایس تیرومورتی کا بیان سامنے آیا کہ "کشمیر ، بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ،ہم دنیا کو بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ بھارت کے زیر انتظام علاقے جموں و کشمیر بھارت کے اندرونی معاملات ہیں” لیکن ساتھ انہوں نے مذاکرات کے آپشن پر بات کرتے ہوئے کہاکہ "بھارت سرکار پاکستان کے ساتھ دو طرفہ مسائل پر بات چیت کے لئے تیار ہے،مذاکرات دہشت گردی اور تشدد سے پاک فضا میں ہونے چاہئیں، لہذا پاکستان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پرامن اور سازگار ماحول پیدا کرے” بھارت نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ دہشتگردی کے خاتمے اور امن کے قیام پر زور دے گا.

یہاں یہ قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں جاری آزادی کی کوششوں کو بھارت دہشتگردی سمجھتے ہیں جبکہ پاکستان کی نظر میں یہ آزادی کے لئے جدوجہد ہے. اس کے علاوہ بھارت کا اشارہ افغانستان میں طالبان کی طرف بھی ہوسکتا ہے جسے وہ اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں. بہر حال ہندوستان اپنی ساکھ بہتر بلکہ بہترین کرنے کی کوشش کرے گا-

دوسری جانب پاکستان کو اس فیصلے سے خدشات ہیں، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے ٹی ایس تیرومورتی کے موقف کو فالو کرتے ہوئے کہا کہ”مقبوضہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان متنازعہ مسئلہ ہے جس کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق حل ہونا چاہیے، مذاکرات صرف اس صورت میں ممکن ہے.

اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 91 جو 1951ء میں پاس ہوئی تھی اور قرارداد نمبر 122 جو 1975ء میں پاس ہوئی تھی، دونوں کے متن کا خلاصہ ہے کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری خود اظہار رائے سے کریں گے، وہ بھارت یا پاکستان جس ریاست کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں اسی پر عمل درآمد ہوگا۔ اب بھارت اسی کونسل کی صدارت کریں گا جس کے قراردادوں پر وہ ابھی تک عمل نہ کرسکیں، یقینا یہ ان کے لیے بڑا چیلنج ہوگا-

ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے بھی پاکستان کو خدشات ہوسکتے ہیں، کیونکہ اس وقت پاکستان گرے لسٹ میں موجود ہے- پچھلے سال گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے جو شرائط رکھے گئے تھے پاکستان وہ ان تمام شرائط پر عمل درآمد کرچکا تھا لیکن پاکستان پر کالعدم تنظیموں کے خلاف موثر کاروائیاں نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا جس کی وجہ سے رواں سال ایک بار پھر گرے لسٹ میں برقرار رکھا گیا۔ کالعدم تنظیموں میں جماعت الدعوہ سرفہرست ہے، جس کا سربراہ حافظ سعید ہے- بھارت حافظ سعید کو ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ سمجھتا ہے- بھارت اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے پاکستان کو کم از کم گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کو کوشش کرے گا-

اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کہاں تک اپنے ترجیحات میں کامیاب ہوتا ہے اور پاکستان کے ممکنہ خدشات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہاں پر آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ آئندہ سال دسمبر میں دوسری بار بھارت کو سلامتی کونسل کی صدارت ملے گی جس کے بعد دو سالہ رکنیت کا دورانیہ بھی اختتام پذیر ہوگا۔

نوٹ: بلاگر کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button