سیدہ قرۃ العین
پاکستان جیسے معاشرے میں ایک عورت اگر تنہا زندگی گزار رہی ہو، تو اکثر اس کی زندگی کو حیرت، ترس، یا شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ تنہا عورت کا مطلب ہمیشہ طلاق یافتہ، بیوہ یا شادی سے انکار کرنے والی لڑکی نہیں ہوتا، بلکہ یہ ہر اُس عورت کی کہانی ہے جو اپنی زندگی خود جینے کا فیصلہ کرتی ہے اپنی مرضی سے یا حالات کی مجبوری سے۔
اکیلی عورت کی زندگی بظاہر نارمل دکھتی ہے، لیکن اس کے اندر ایک خاموش جدوجہد جاری ہوتی ہے جسے شاید وہ خود بھی ہر دن جھیلتی ہے لوگ پوچھتے ہیں، "ابھی تک شادی کیوں نہیں ہوئی؟" یا "کوئی ہے آپ کی زندگی میں؟" گویا عورت کا وجود صرف رشتے کی بنیاد پر مکمل ہوتا ہے۔ اور اسکے ساتھ ساتھ عورت کو نظر بد اور زبان کے تیروں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں تنہا عورت کے کردار کو مشکوک سمجھا جاتا ہے اگر وہ خوبصورت ہو، تو اُس پر الزام لگتا ہے کہ ضرور کوئی چکر ہوگا اگر وہ سادہ ہو تو اُسے ترس کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ محلے میں لوگ پوچھتے ہیں کہ کس کے ساتھ رہتی ہو؟ کتنی آمدنی ہے؟ اور کتنے بجے واپس آتی ہو؟ ہر قدم پر اُس کے کردار کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اس سے ان باتوں کا جواب بھی طلب کیا جاتا ہے۔۔۔۔
اکثر ایسی عورتیں جنہوں نے شادی نہیں کی، یا جن کا رشتہ کسی وجہ سے ٹوٹ گیا، وہ صرف اپنی زندگی نہیں بلکہ اپنے ماں باپ بہن بھائی یا اگر بیوہ یا طلاق یافتہ ہیں تو بچوں کی ذمہ داریاں بھی نبھا رہی ہوتی ہیں، وہ باہر کام کر کے روٹی کماتی ہیں اور گھر آ کر بیمار ماں کی خدمت کرتی ہیں یا بوڑھے باپ کی فکر میں جاگتی ہیں۔
کبھی بھائی کی فیس دینا کبھی بہن کی شادی کے لیے بچت کرنا اور کبھی خاندان کے بڑوں کے طعنے سہنا سب کچھ ایک اکیلی عورت کے کندھوں پر ہوتا ہے وہ خود تھک جاتی ہے لیکن دوسروں کو آرام دینے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔۔ اور اپنی زندگی سے تھکن کا حرف مٹا دیتی ہے ۔۔۔۔
یہ معاشرہ بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کو بھی چین سے جینے نہیں دیتا۔ اُسے بار بار اُس کے ماضی کی یاد دلائی جاتی ہے اگر وہ دوبارہ شادی کرنا چاہے تو سوال اٹھائے جاتے ہیں اگر نہ کرے تو افسوس جتایا جاتا ہے۔
شادی ٹوٹ گئی اب کیا کرو گی؟
اب تمہارے بچے ہیں کوئی کیوں ذمہ داری لے گا؟
!!!یہ تو اب آزاد ہو گئی ہے کچھ بھی کر سکتی ہے
مرد طلاق یافتہ ہو تو اسکے کردار پر حرف نہیں آتا اور اسکے لیے رشتوں کی تلاش کی جاتی ہے اسکے برعکس عورت اگر طلاق یافتہ ہو تو سب سے پہلے اسے یہ الفاظ سننے کو ملتا ہے تمہیں اب کوئی طلاق یافتہ یا رنڈوا مرد ہی ملے گا۔۔ ۔۔ کیوں عورت کو اس قسم کی ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ کیوں کہ اسمیں ہمت تھی غلط کے خلاف آواز بلند کرنے کی یا وہ ایک عورت ہے؟
ایسی باتیں بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کے لیے روز کا معمول بن جاتی ہیں۔ اسے صرف زندگی دوبارہ شروع نہیں کرنی بلکہ لوگوں کی نظروں زبانوں اور خیالات سے بھی بچنا ہوتا ہے۔
خود مختاری خود غرضی نہیں ہے۔۔۔۔۔
جب کوئی عورت خود کام کر کےاپنی زندگی گزارتی ہے تو اسے خود غرض یا بدتمیز کہا جاتا ہے، لوگوں کو اس کی خودمختاری سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ایک مرد اگر خود اکیلا ہو تو وہ آزاد خوددار یا لاجواب مانا جاتا ہے لیکن عورت اگر اکیلی ہو تو وہ یا تو بیچاری ہے یا مشکوک ؟
عورت اکیلی نہیں رہ سکتی جیسے عورت کوئی معذور مخلوق ہو۔
ضرور کوئی دکھ ہے اس کی زندگی میں کیونکہ خوشی صرف شادی سے مشروط ہے؟
یہ عورت کچھ زیادہ ہی آزاد ہو گئی ہے کیونکہ اگر وہ آواز بلند کرے یا اپنے حق کے لیے کھڑی ہو جائے، تو وہ ناقابل قبول ہو جاتی ہے۔
تنہا عورت کا ذہنی سکون لوگوں کے ہاتھ میں گھوڑے کی لگام کی طرح ہوتا جب چاہے یہ معاشرہ اس لگام کو کھینچ لیتا ہے ۔۔۔۔
اکیلی عورت پر نہ صرف مالی بلکہ جذباتی بوجھ بھی ہوتا ہے۔ ہر فیصلہ اُسے خود لینا ہوتا ہے ہر الزام کا جواب بھی خود دینا ہوتا ہے وہ اپنے اندر کے خوف سماج کے طعنوں اور تنہائی کے سائے کے ساتھ بھی جینا سیکھ لیتی ہے وہ خود ہی ماں بھی ہوتی ہے باپ بھی اور محافظ بھی۔
رات کی خاموشی میں جب دنیا سو جاتی ہے تب وہ عورت خود سے سوال کرتی ہے کیا میں واقعی اکیلی یا ادھوری ہوں یا بس لوگوں کی نظروں میں میری کوئی پہچان نہیں۔۔۔۔؟
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اجکل کے زمانے میں جہاں نکاح کو خوبصورتی ، دکھاوے ، اور پیسے سے مشروط کر دیا گیا ہے وہاں بہت سی لڑکیوں نے خود کو خودمختار بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔۔۔
کیا ہمیں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے؟
ہمیں بطور معاشرہ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیوں تنہا عورت کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیوں اُس کی خودمختاری سے ہمیں خطرہ محسوس ہوتا ہے؟ اور کیوں ہم اُس کی جدوجہد کو تسلیم نہیں کرتے؟
تنہا عورت کسی کی بیوی نہ ہو، تو بھی وہ ایک مکمل انسان ہے۔
اس کی شناخت کسی رشتے سے مشروط نہیں ہونی چاہیے، وہ بھی خواب دیکھنے، عزت سے جینے اور اپنے فیصلے خود کرنے کا حق رکھتی ہے ہمیں اُس کے ساتھ ہمدردی نہیں بلکہ برابری اور عزت کا سلوک کرنا چاہیے۔۔۔
کیا ہم واقعی ایک ایسے معاشرے میں رہنا چاہتے ہیں جہاں ایک عورت کی پہچان صرف اس کے رشتے، شادی یا خاندان سے ہو؟ یا پھر ہم اُسے ایک مکمل باشعور اور خودمختار انسان سمجھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟