خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویوقبائلی اضلاع

قبائلی اضلاع میں دہشتگردی سے متاثرہ بے گھر افراد کس حال میں ہیں؟

علی افضل افضال

گزشتہ دو دہائیوں پر محیط دہشتگردی اور عسکریت پسندی سے متاثرہ عوام فاٹا انضمام کے تقریباً تین سال بعد بھی بنیادی سہولیات سے محرومی کا رونا رو رہے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف مختلف ناموں پر اپریشنز میں قبائلی اضلاع کے عوام نے نہ صرف جانوں کی قربانیاں دی بلکہ روزگار،تعلیم اور دیگر نقصانات کا بھی سامنا کیا۔
فوجی کاروائیوں کے دوران امن اور اپنے علاقوں میں معمول کی زندگی کی بحالی کی خاطر اپنے گھروں کو چھوڑ کر خیبرپختونخواہ کے پرامن علاقوں میں پناہ لینے کی کوشش کی، لیکن حکومت کی جانب سے امن کی بحالی اور دہشتگردی کی کمر توڑنے کے دعووں کے بعد عوام کی زندگیاں بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور سہولیات کی فراہمی کے مطالبے کیلئے جرگوں کا انعقاد کر رہی ہے۔

جرگے کے ذریعے کونسے مطالبات کئے جا رہے ہیں؟

خیبرپختونخواہ کے قبائلی ضلع کرم کے علاقے مناتو کے قبائلی عمائدین نے مشترکہ جرگہ میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دہشتگردی سے متاثرہ علاقوں میں تباہ شدہ مکانات کی تعمیر کا عمل فوری طور پر شروع کیا جائے۔
جرگے میں علاقے کے مشران، نوجوانوں اور دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے شخصیات نے شرکت کی۔
اس موقع پر وسطی کرم میں علاقے کی فلاح و بہبود کیلئے کیلئے کام کرنے والی پندرہ رُکنی کمیٹی کے سربراہ حاجی نواب خان نے کہا کہ جرگہ قبائلی ضلع کے علاقہ علی شیرزئی میں دہشتگردی سے متاثرہ گھروں کی بحالی اور آبادکاری کے اقدامات کو خوش آئند قرار دے رہی ہے۔ انہوں نے جرگے کے توسط سے مطالبہ کیا کہ مناتو، منڈان اور چنار سمیت دیگر ملحقہ دیہات میں بھی فوری طور پر سروے کا عمل شروع کیا جائے کیونکہ یہاں پر بھی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سینکڑوں گھر منہدم ہوچکے ہیں جو متاثرہ افراد کیلئے رہنے کا قابل نہیں ہے۔
کمیٹی کے ممبر حاجی فضل حنان نے علاقے کے دیگر مسائل پر بات کرتے ہوئے جرگے کو بتایا کہ علاقے کے عوام کو صرف چھت کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں بنیادی سہولیات بھی فراہم کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ حقیقت میں عوام کی اعتماد بحال ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ مناتو میں حکومت نے علاج معالجہ کے لئے بنیادی ہسپتال (بی ایچ یو) تعمیر کی ہے لیکن وہاں پر ادویات اور ڈاکٹروں کی کمی سے عوام بنیادی صحت کے سہولیات سے محروم ہیں اسلئے جرگے کا مطالبہ ہے کہ حکومت یہاں پر مفت ادویات اور ڈاکٹروں کی تعیناتی یقینی بنائیں۔
جرگے سے خطاب میں سماجی کارکن سرور خان نے پانی کی قلت اور ضرورت پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ نہ صرف ضلع کرم کے دیہات میں پانی کی شدید قلت ہے بلکہ شہری علاقوں کے عمائدین بھی پانی کی کمی کے مسئلے سے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ انہوں نے آبادی کے لحاظ سے تین نئے ٹیوب ویلز بنانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ علاقے کی کاروبار اور تعمیر و ترقی کیلئے ضروری ہے کہ مواصلاتی نظام بہتر کیا جائے جس میں گلی کوچوں کی پختگی اور روڈ کی تعمیر شامل ہے۔
جرگے میں بیٹھے سینکڑوں شرکا سے کمیٹی کے رُکن مزید خان نے بچوں کیلئے تعلیمی سہولیات اور ضروریات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ قبائلی اضلاع مسلسل 20 سالوں سے دہشتگردی کے لپیٹ میں تھے اور اسکے خلاف فوجی کاروائیوں کے ردعمل میں عموماً عام آبادیوں اور بالخصوص سکولوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا جس کا مقصد آنے والے نسل کو تعلیم سے محروم کرنا تھا۔
مزید خان نے کہا کہ اگر حکومت واقعی علاقے کی ترقی میں سنجیدگی رکھتی ہے تو نہ صرف سکولوں کی بحالی بلکہ لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے نئے سکولوں کی تعمیر اور پہلے سے تعمیر شدہ سکولوں میں عملے کی فراہمی یقینی بنائیں۔
جرگے کے مشران نے واضح کر دیا کہ علاقے کے عوام نے مشکل حالات میں حکومت کے ساتھ تعاون کرکے امن بحال کی ہے لیکن اب وقت آیا کہ حکومت خلوص نیت کے ساتھ بے گھر عوام کو سہولیات فراہم کرے ورنہ انکی اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچے گا۔

جرگے کے مطالبات پر حکومتی ردعمل

ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر آفاق وزیر نے ٹی این این سے باتچیت کے دوران جرگے کے مطالبات پر موقف دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے شہریوں کی املاک کے نقصانات کے تلافی کے لئے سیٹیزن لاسسز کمپنسیشن پروگرام (سی ایل پی سی) سروے میں اُن گھروں کا جائزہ لیا جو دہشتگردی کے خلاف اپریشنز میں متاثر ہوئے تھے۔
آفاق وزیر کا دعوہ ہے کہ مکمل طور پر تباہ شدہ گھروں کی بحالی کیلئے 4 لاکھ جبکہ جزوی طور پر منہدم گھروں کیلئے 1 لاکھ 60 ہزار روپے جاری کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے تاحال ساڑھے سات ہزار خاندانوں میں گھروں کی بحالی کے چیکس تقسیم کئے ہیں اور باقی 8 سو گھروں کی سروے پر کام جاری ہے۔
"حکومت متاثرین کو چیکس اسلئے دیتے ہیں تاکہ وہ آئیں اور اپنے علاقے آباد کریں، اپنے زمینیں کاشت کریں، اور اپنی روزگار شروع کریں”۔
ذرائع کے مطابق علاقے میں سروے کا عمل انتہائی سُست روی کا شکار ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ سروے ٹیم ایک دن کیلئے آتی ہے اور پھر دس تک غائب رہتی ہے۔
ڈپٹی کرم نے علاقے کے عوام کو یقین دہانی کرائی کہ جرگے کے ذریعے اُٹھائے گئے مطالبات کو اگلے حکومتی اجلاسوں میں زیرغور لایا جائے گا اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریںگے۔

دہشتگردی سے متاثرہ گھروں کی صورتحال کیا ہے؟

سرکاری دستاویزات کے مطابق اس ضلع مہمند، باجوڑ، ملاکنڈ، شمالی وزیرستان اور خیبر میں مجموعی طور پر 145’706 گھر مکمل اور جزوری طور پر متاثر ہوچکے ہیں جن میں 81 ہزار 509 خاندانوں کو امدادی چیکس دئے گئے ہیں جبکہ کچھ علاقوں میں تصدیق کا عمل جاری ہے۔ دستاویزات کے مطابق سب سے زیادہ مکانات شمالی وزیرستان میں متاثر ہوچکے ہیں جن کی مجموعی تعداد 87 ہزار 605 ہیں

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button