خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویوکورونا وائرس

کیا خیبرپختونخوا میں کھیلوں کی سرگرمیاں دوبارہ بند ہو رہی ہیں؟

سلمیٰ جہانگیر

مردان کے ںواحی علاقے شیخ کلے میں مقامی طور پر مشہور کرکٹ کی بجائے فٹبال ٹورنمنٹ کا انعقاد کیا گیا ہے جس کے میچز دیکھنے کے لئے روزانہ سینکڑوں لوگ میدان کا رخ کرتے ہیں۔ میچز میں تمائشیوں کی زیادہ تعداد کی وجہ شائد یہ ہو کہ یہ کھیل پہلی دفعہ یہاں کھیلا جا رہا ہے جس میں شریک ٹیمیں بھی مقامی ہی ہیں۔

تمائشائیوں کو قابو میں رکھنے کے لئے ٹورنامنٹ منتظمین کی جانب سے جگہ جگہ رضاکار کھڑے کئے گئے ہیں لیکن اس دوران ایسا کوئی رضاکار ضلعی انتظامیہ کے اہلکار نظر نہیں آئے جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانے کی کوشش کریں۔

ملک بھر میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے پیش نظر حکومت بار بار سخت اقدامات کا عندیہ دیتی آ رہی ہے لیکن اس سلسلے میں ابھی تک کوئی ٹھوس اقدام نظر نہیں آ رہا۔

وزیراعظم عمران خان نے چند دن پہلے مکمل لاک ڈاؤن کا امکان تو مسترد کردیا ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ جس شرح سے کیسز بڑھ رہے ہیں تو ایسی صورتحال میں کھیلوں کی سرگرمیوں اور دیگر اجتماعات پر پابندی خارج از امکان نہیں ہے۔

کورونا وائرس کے پہلے لہر نے دنیا بھر میں دیگر شعبوں کی طرح کھیلوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جس سے پاکستان بھی محفوظ نہیں رہا ہے۔

مارچ میں ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کے ساتھ جہاں ملک کا سب سے بڑا کرکٹ ایونٹ پاکستان سپر لیگ نامکمل رہ گیا وہاں قومی اور مقامی سطح پر کھیلے جانے والے کھیلوں کے مقابلے بھی متاثر ہوئیں۔

جون میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد سے کھیلوں کی سرگرمیاں دوبارہ بحال ہوئی ہیں لیکن اس کے لئے مختص ایس او پیز تجویز کئے گئے ہیں جن پر عمل درآمد کو ایک بڑے چیلنج کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اس دوران بین الاقوامی سطح پر کھیلے جانے والے کھیلوں میں تمائشائیوں پر پابندی، کھلاڑیوں کے لئے قرنطینہ مراکز میں وقت گزارنا اور کرکٹ میں گیند پر تھوک لگانے پر پابندی جیسے ایس او پیز نافذ کئے گئے تو مقامی سطح پر بھی ان کا نفاذ کیا گیا۔

لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد خیبرپختونخوا کے صوبائی حکومت نے بھی کھیلوں کا رکا ہوا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا ہے اور اس سلسلے میں آغاز انڈر 21 کے سوئمنگ مقابلوں سے کیا ہے جبکہ اس کے بعد خواجہ سراؤ کے لئے ایک خصوصی  سپورٹس میلہ اور کھلاڑی باہم معذوری کے درمیان بھی مختلف کھیلوں کے مقابلے منعقد کئے۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی ایک پاؤں سے معذور خاتون کھلاڑی گلشن جنہوں نے کچھ عرصہ قبل پشاور میں سرکاری سطح پر ہونے والے پاور لفٹنگ اور ٹیبل ٹینس کے مقابلوں میں حصہ لیا ہے کا کہنا ہے کہ انتظامیہ ایس او پیز پر عمل درآمد کروانے کی کوششیں کر رہی تھی لیکن اس ضمن میں کھلاڑیوں پر بھی پوری پوری زمہ داری عائد ہوتی ہے۔

گلشن کا کہنا ہے ‘کھیل کے دوران ہم نے ماسک اور سینی ٹائزر کا استعمال کیا، اسکے علاوہ بار بار ہاتھ بھی دھوتے تھے، میں زاتی طور پر تمام ایس او پیز کا بہت خیال رکھتی لیکن کچھ لوگ خیال نہیں بھی رکھتے تھے، ماسک کا استعمال کوئی کرتا اور کوئی نہیں کرتا تھا’

انہوں نے کہا انتظامیہ کوشش کر تو سکتی ہیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ تمام کھلاڑیوں پر تمام ایس او پیز کی عمل درآمد یقینی بنائیں۔

اسی طرح خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس اسفندیار خٹک کا بھی یہی کہنا ہے کہ کرونا وبا اور لاک ڈاؤن کے بعد سرکاری سطح پر کھیل کے بڑے مقابلے نہیں ہوئے لیکن اب جو ہو رہے ہیں ان میں ایس او پیز کا خیال رکھا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہ جب سرگرمیاں دوبارہ بحال ہوئی تو محکمہ کی کوشش تھی کہ انڈوور گیمز کم سے کم رکھے جائیں جبکہ اس کے علاوہ باہر اضلاع سے آنے والے کھلاڑیوں کے درمیان سماجی دوری برقرار رکھنے کے لئے ایک کمرے میں دو سے زیادہ افراد کو نہیں ٹہرایا جاتا۔

سرکاری سطح پر ہونے والے مقابلوں میں کسی نہ کسی حد تک ایس او پیز پر عمل ہوتا ہے جبکہ مردان میں منعقدہ فٹبال ٹورنامنٹ کی طرح نجی اور مقامی سطح پرہونے والے مقابلوں میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔

پشاور میں میڈیا کرکٹ لیگ کے نام سے صحافیوں کا  سالانہ ٹورنامنٹ جاری ہے جس میں 250 سے زیادہ کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔ ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والے صحافی وحید خان کا کہنا ہے کہ گراؤنڈ میں ایس او پیز کو مکمل طور پر فالو نہیں کیا جا رہا۔

انہوں نے کہا ‘ سپورٹس میں ایس او پیز پر مکمل درآمد کرنا بہت مشکل ہے. تماشائی تو یہاں نہیں ہوتے لیکن کھلاڑی بھی آپس میں فاصلہ نہیں رکھ سکتے، کوئی باؤلر وکٹ لیتا ہے تو تمام کھلاڑی ان سے گلے ملنے اور ہاتھ ملانے ضرور آتے ہیں اور ایسا انٹرنیشنل مقابلوں میں بھی ہوتا ہے’

وحید خان نے کہا کہ میچ کے دوران ماسک کا استمال اور سینیٹائزر کا استمال بھی ممکن نہیں ہے۔

صحافی و کھلاڑی کا ماننا ہے کہ کھیلوں سمیت تمام شعبوں میں ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد سرے سے ممکن ہی نہیں ہے جبکہ کم از کم اتنا ہونا چاہئے کہ ایک میچ کیلئے لوگ زیادہ تعداد میں جمع نہ ہو اور اجتماعات نہ بنیں جنہیں کورونا کے پھیلاؤ کا ایک بڑا زریعہ مانا جاتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button