کورونا نے پختونوں کی مضبوط ثقافت کو بھی بدل کر رکھ دیا
خالدہ نیاز
‘پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا کیسز میں مسلسل اضافے کے باوجود چند مہینوں بعد لاک ڈاؤن ختم کردیا گیا ہے اور بظاہر زندگی واپس بحال ہوگئی ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ اب شائد کئی برسوں تک ہم ایسی زندگی میں واپس نہ لوٹ سکیں جو سات مہینے پہلے تک گزار رہے تھے’
پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی عبدالرؤف یوسفزئی سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ عام انسان کے زندگی گزارنے کے عام طریقوں سے لیکر ممالک کے داخلہ و خارجہ پالیسیوں اور درامدات و برامدات تک پر اس وائرس کا اثر پڑا ہے۔ مقامی سطح پر کاروبار و تجارت پر فرق پڑنے کے بعد دنیا بھر میں کروڑوں لوگ کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا ہے تو تیل اور سیاحت پر استوار ملکی معیشتیں بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔
کئی مہینوں تک دنیا بھر کی ائیرپورٹس بند ہونے اور جہاز گراؤنڈ ہونے کے بعد ہوائی سفر دوبارہ شروع ہوچکا ہے، ریل سٹیشنوں پر پھیلے سناٹے دوبارہ ریل گاڑیوں کی اوازوں میں تبدیل ہوچکی ہیں، لیکن کیا سب کچھ ویسا ہی ہے جیسے دسمبر 2019 سے پہلے تھا؟ ہرگز نہیں! کیونکہ ہر انسان کی طرز زندگی، سوچ، عادات و اطوار بدل چکے ہیں۔ بے شک حفاظتی اقدامات سے متعلق تبدیلیاں مثبت ہیں لیکن اس دوران انسان کی جسمانی و ذہنی صحت میں جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ بڑی نقصآن دہ ہے۔
صحافی نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے زیادہ تر دفاتر بند ہوگئے تو ملازمین نے گھروں سے آن لائن کام شروع کردیا۔ لوگوں کو خاندان اور بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ہاتھ آیا تو ایسے میں کئی ممالک سے ایسے خبریں آنے لگی کہ جوڑوں کے مابین جھگڑے زیادہ ہوگئے ہیں اور خواتین و بچوں پر تشدد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
بچوں کے لئے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے بھی اپنے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے دنیا کا نظام بدلنے کے ساتھ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے جیسے کہ بچے اور خواتین پر تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
مئی میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق پچھلے مہینے ایک سے لیکر 14 سال تک کے ہر دس میں سے آٹھ بچوں پر گھروں میں ذہنی یا جسمانی تشدد کیا گیا ہے۔ اسی طرح 2 سے 4 سال کے درمیان تین چوتھائی بچوں کو اپنے ہی گھروں میں جسمانی سزا دی گئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 19 فیصد شادی شدہ خواتین کو بھی اپنے ساتھی کی جانب سے جسمانی تشدد یا جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور موجودہ بحران کے دوران خواتین پر اس قسم کے تشدد کے واقعات میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
کیا کورونا نے پاکستانیوں کو بدل دیا ہے؟
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے ساتھ لوگوں کی طرز زندگی بدل چکی ہے، حالانکہ یہاں زیادہ تر لوگ اب بھی اس حقیقت کو ماننے کو تیار نہیں کہ وائرس پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے لیکن پھر بھی حکومتی پالیسیوں اور معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے ایسے لوگوں کو بھی بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔
‘میں خود ایک تعلیم یافتہ انسان ہوں لیکن میں بھی کورونا وائرس کو مذاق ہی سمجھ رہا تھا مگرپھر جب ہمارے علاقے میں لوگ اس وائرس سے جان کی بازی ہارگئے تو اب میں اس سے اتنا خوفزدہ ہوگیا ہوں کہ میں نے لوگوں سے میل جول بالکل ختم کردی ہے’
باجوڑ یوتھ جرگہ کے صدر اور سوشل ورکرواجد علی شاہ نے کہا کہ سوشل ورک کے سلسلے میں بہت گھومتا پھرتا تھا، لوگوں سے ملتا تھا ان کے مسائل کے حل کے لیے کام کرتا تھا لیکن اب وائرس کے پھیلاؤ کے بعد انکی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابرہوگئی ہے۔
واجد علی شاہ نے کہا ‘جب کورونا وائرس پاکستان میں پھیلا تو اس حوالے سے بہت ساری افواہیں بھی پھیلی کہ جب گرمی آئے گی تو یہ وائرس ختم ہوجائے گا اور لوگ بھی انہیں باتوں کو آگے پھیلانے لگے، کسی نے کہا بغیر دودھ والی چائے اس کا علاج ہے تو کسی نے ثنامکی نامی پودے کے پتے کو مفید قرار دیا، ایک افواہ یہ بھی پھیلی کہ ادرک کا زیادہ استعمال کریں تو اس سے کورونا سے بچاجاسکتا ہے تو یہاں لوگوں نے اس کا استعمال زیادہ کردیا’
بدقسمتی سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران زیادہ تر پاکستانیوں کا رویہ اور سوچ واجد علی شاہ اور ان کے گاؤں فجہ والوں جیسی تھی اور ماہرین کے مطابق یہاں وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کا سبب بھی یہی ہے کہ عوام نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا اور احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی۔
واجد علی شاہ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے انکا سوشل ورک کا کام سوشل میڈیا تک محدود ہوگیا ہے۔ وہ اب زیادہ تر لوگوں میں اگاہی پھیلانے کے پوسٹس کرتا ہے یا کسی کے لئے امداد کی اپیل کرلیتا ہے۔
پاکستان میں کئی مہینوں کے لاک ڈآؤن کے بعد رفتہ رفتہ تمام شعبہ جات کھولے گئے ہیں لیکن واحد تعلیم کا شعبہ ہے جس کے حوالے سے ابھی تک فیصلہ نہ ہوسکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کورونا یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں کمزور کیوں؟
‘ جب کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پرخاندان والوں نے میرے گھرانے کو ہی اکیلا چھوڑ دیا’
قبائلی شخص کا کورونا مریض سے پلازما ڈونر تک کا سفر کیسا رہا؟
جب بونیر کا ہسپتال کورونا مریض کو حوالات اور ڈاکٹر تھانیدار لگا
‘کورونا کا شکار ہوا تو گاؤں میں یہ پروپیگنڈا تھا کہ رقم بٹورنے کے لئے ڈرامہ کر رہا ہوں’
پاکستان بھر میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات نہ ہونے پر حکومت نے تمام طلباء کو اگلے جماعتوں میں پروموٹ کر لیا ہے کہ مارچ میں بند ہونے والے تعلیمی اداروں کے کھلنے کا فیصلہ ابھی تک تعطل کا شکار ہے۔
سرکاری اور چھوٹے نجی تعلیمی اداروں اور دینی مدرسوں کے بچے گزشتہ چار ماہ سے درس و تدریس سے دور ہیں جبکہ یونیورسٹیز اور بڑے اور مہنگے تعلیمی اداروں نے آن لائن کلاسز شروع کر رکھی ہیں۔
مردان سے تعلق رکھنے والا سمیع الرحمان بھی انہیں اساتذہ میں سے ایک ہے جو نجی تعلیمی ادارے سے منسلک ہیں اور آج کل آن لائن کلاسز لے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ‘کورونا نے جہاں باقی لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لائی ہے وہاں پرمیری پروفیشنل زندگی بھی اس وجہ سے تبدیل ہوئی ہے۔ پہلے میں روایتی طریقے سے کالج جاتا تھا روزانہ کلاسز لیتا تھا لیکن اب میں آن لائن کلاسز لیتا ہوں اور کہیں سے بھی آن لائن ہوکرطلباء کو پڑھا سکتا ہوں’۔ وہ کہتے ہیں کہ آن لائن کلاسز کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا کلاس روم میں ہوتا ہے۔ کبھی کبھار انٹرنیٹ کا مسلہ بھی آجاتا ہے جبکہ کلاس روم کی طرح تمام بچوں کو مانیٹر بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کا کام دیکھا جاسکتا ہے جس سے نہ صرف اساتذہ کا کام متاثر ہوتا ہے بلکہ طلبا بھی اچھے طریقے سے نہیں پڑھ سکتے۔
کورونا وائرس نے نہ صرف سمیع الرحمان کی پیشہ ورانہ زندگی کو تبدیل کیا ہے بلکہ ہراس شخص کی زندگی بدل کے رکھ دی ہے جو کسی نہ کسی کام سے منسلک تھا، پاکستان میں گھرسے آن لائن کام کرنے کا رواج نہیں تھا تاہم اب زیادہ ترلوگ دفترکا کام آن لائن گھروں سے نمٹانے لگے ہیں۔
کورونا پھیلاؤ کے بعد مختلف ممالک کا مختلف رویہ
کورونا وائرس دسمبر2019 میں چین کے شہرووہان سے پھیلا تھا جو اب پوری دنیا تک پھیل چکا ہے۔ چین میں کورونا وائرس سے ساڑھے چھ ہزار سے زائد افراد ہلاک جبکہ 83 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے تاہم چین نے کورونا وائرس پربہت جلد قابو پالیا۔
ماہرین کے مطابق ووہان میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد حکومت نے کئی ایک اقدامات کیے ٹرینیں تو چل رہی تھی لیکن ان میں مسافرنہیں ہوتے تھے، جگہ جگہ لاتعداد بخارچیک کرنے والے مراکز کا قیام عمل میں لایا گیا بخار چیک کرنے والے مراکز میں اگر مریضوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوجاتی تو انہیں آئسولیشن سینٹر یا ہسپتال بھیجا جاتا۔
اس کے علاوہ چین نے محض 10 دن میں ایک ہزار بستروں پرمشتمل عارضی ہسپتال کو تعمیرکیا جبکہ 13 سو بستروں کا ہسپتال 15 دن میں مکمل کیا، مجموعی طور پر ایسے درجن سے زیادہ ہسپتالوں کی تعمیر ہوئی۔ چینی طبی حکام نے ملک میں 80 ہزار سے زائد لگ بھگ ہر کیس کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔
دوسری جانب اٹلی، سپین اور چند دوسرے یورپی ممالک نے اس وائرس کو سنجیدہ نہیں لیا تو اس کا خمیازہ ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ ان ممالک میں نہ صرف حکومتوں نے وائرس پھیلنے کے بعد چین کے طرز کا لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے انکار کردیا بلکہ عوام نے بھی حفاظتی اقدامات کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ اب حال یہ ہے کہ جہاں دنیا بھر میں کورونا کے مثبت کیسز میں مرنے والوں کی شرح 5 فیصد سے بھی کم ہے وہاں اٹلی اور برطانیہ میں یہ شرح 14 فیصد جبکہ سپین میں 11 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
پاکستان میں بھی پہلے پہل نہ صرف عوام نے کورونا وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ حکومت کی جانب سے بھی خاطرخواہ اقدامات نظرنہیں آئے۔ ایران سے متصل تفتان بارڈر پرہزاروں زائرین پاکستان میں داخل ہوئے جن کے لیے یہاں چیکنگ کا مناسب بندوبست نہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ لوگ پورے ملک میں داخل ہوگئے. اسی طرح وبا کے دنوں میں 12-13 مارچ کو لاہور میں تبلیغی اجتماع ہونا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت تب تک اس حوالے سے سنجیدہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ حکومتی اہلکار بھی بارہا کہتے رہے کہ پاکستان میں وائرس سے کوئی خاص خطرہ موجود نہیں، نہ ہی ٹیسٹ کے لیے خاطرخواہ اقدامات کئے گئے اور نہ ہی ہسپتالوں میں باقی سہولیات کی فراہم یقینی بنائی جا سکی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیراعظم عمران خان نے خود ٹیلی ویژن پر آکر یہ دعویٰ کردیا کہ ہمارے ملک میں وائرس سے زیادہ نقصان نہیں ہوگا اور دوسری بات یہ کہ گرمی کے آتے ہی یہ وائرس بھی ختم ہوجائے گا۔
پاکستان میں موجودہ وقت میں کورونا سے اموات کی مجموعی تعداد ساڑھے چار ہزارجبکہ متاثرہ افراد کی تعداد 2 لاکھ 18 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
کورونا وائرس نے پاکستانیوں اور بالخصوص پختونوں کی معاشرت کیسے بدل دی؟
کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں تقریباؑ ہر شخص میں انفرادی طور پر تبدیلیاں آئی ہیں وہاں معاشروں پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں جو کہ مختلف سماج میں مختلف ہوسکتے ہیں۔
کورونا وائرس نے پختونوں کی زندگی کیسے بدل دی ہے اس حوالے سے معاشرتی اقدار پر گہرے نظر رکھنے والا اور پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی کے سینیئر استاد ظفرخان کا کہنا ہے کہ کورونا نے پوری دنیا کو تبدیلی کی جانب گامزن کردیا ہے اور دنیا کے کئی ممالک کی گڈ اور بیڈ گورننس کو بے نقاب کردیا ہے’ امریکا جو خود کو سپرپاور کہتا ہے کورونا نے وہاں موجود مسائل اور کمزوریوں کو خوب اجاگرکیا، کورونا نے دنیا کی معیشت کو بھی تباہ کردیا ہے جو مشکل سے آئندہ دو تین سالوں میں اپنی جگہ پائے گا اس کے ساتھ ساتھ عام آدمی کو نہ صرف معاشی طورپرتباہ کیا ہے بلکہ کورونا نے نفسیاتی طور پربھی اس پرکافی اثرات ڈالے ہیں۔’
انہوں نے کہ اس وقت کورونا کی وجہ پشتون معاشرہ بھی تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ پختون معاشرے میں لوگوں کا ایک دوسرے سے میل ملاپ کا بانڈ بہت مضبوط ہوتا ہے جسکا توڑنا اب تک ناممکن لگ رہا تھا، کورونا نے اس بانڈ کو بھی بہت کمزور کردیا ہے، لوگوں سے گلے ملنا، لوگوں سے ہاتھ ملانا، شادی بیاہ اور فوتگی میں جانا پشتون ثقافت کا ایک بہت اہم حصہ ہے لیکن اب کورونا کی وجہ سے لوگوں کی طرز زندگی میں تبدیلی آگئی ہے اور انہوں نے ان چیزوں سے دوری اختیار کرنا شروع کی ہے۔
ظفرخان نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے ایک مثبت چیز بھی سامنے آئی ہے کہ اب لوگوں نے صفائی کا خیال رکھنا شروع کیا ہے۔
‘کورونا وائرس نے بچوں پربھی گہرے اثرات چھوڑے ہیں، وہ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں، نہ سکول جاسکتے ہیں نہ کہیں باہرجاسکتے ہیں، نہ سپورٹس گراونڈز جاسکتے ہیں اور نہ ہی تفریح کے لیے باہرجاسکتے ہیں تو ایسے میں وہ بھی گھٹن کا شکارہوگئے ہیں اور زیادہ تروقت انٹرنیٹ پرگزار رہے ہیں’
گھروں میں محصور ہونے کے بعد لوگوں نے آن لائن شاپنگز میں زیادہ دلچسپی لینی شروع کی ہے اور اپنی پسند کی چیزیں منگوا رہے ہیں اس کے علاوہ نیٹ فلیکس اور باقی سائٹس پرفلمز دیکھنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
نفسیات پر اس بیماری کا اثر
ماہرین نفسیات کے مطابق کورونا وائرس نے انسانوں کو جسمانی طور پر متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیات کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔ میڈیا میں زیادہ تر کورونا کے حوالے سے مواد نشر ہونے کی وجہ سے لوگوں میں بہت خوف پھیل گیا ہے۔ اس صورتحال میں کورونا مریضوں پر نفسیاتی اثرات اور بھی گہرے ہیں۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں کے شعبہ پیڈیکل کیئرکے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرمحمد شہریار جو موجودہ صورتحال میں کورونا آئی سی یو میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں کا کہنا کہ ان کے پاس آئی سی یو میں ایسے مریض آتے ہیں جن کی حالت زیادہ تشویشناک ہوتی ہیں اور عموما وہ بولنے کے قابل نہیں ہوتے لیکن ایمرجنسی سے باہرجن مریضوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوجائے تو انکی انزائٹی بہت بڑھ جاتی ہے اور جس وقت انکو اپنا آکسیجن لیول کم دکھائی دیتا ہے تو اس وقت وہ بہت ہی زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں۔
‘مریضوں اور ڈاکٹرز کا رشتہ بھروسے کا ہوتا ہے لیکن کورونا وائرس میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کسی میں اس مرض کی تصدیق ہوجائے تو اس وقت اس کو آئسولیشن کی ضرورت ہوتی ہے ایسے میں پھرڈاکٹرز مریض کو آئسولیٹ کردیتے ہیں تو جو تیماردار وغیرہ ہوتے ہیں وہ اس بات کا گلہ کرتے ہیں کہ آپ نے کیوں ہمارے مریض کو اکیلا چھوڑ دیا اس وجہ سے ڈاکٹرز، مریضوں اور تیمارداروں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں، اس کے علاوہ اس وائرس کی وجہ سے ہسپتال کا عملہ بھی فکرمند ہوتا ہے کیونکہ اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ وائرس مریض سے عملے میں منتقل ہوجائے لیکن اب وقت گزرنے کے ساتھ ہم ان حالات کے ساتھ عادی ہوچکے ہیں’ ڈاکٹر محمد شہریار نے کہا۔
کورونا وائرس کی اقسام اور موجودہ وائرس کی ہولناکی کی وجوہات
دنیا میں اس سے پہلے بھی کئی وبائیں آئی ہیں جس سے مختصر عرصے میں لاکھوں بلکہ کروڑوں تک لوگ ہلاک ہوگئے تھےلیکن موجودہ نسل کو پہلی دفعہ ایسی وبا سے واسطہ پڑا ہے جس سے اتنی بڑی تعداد میں اموات ہوئی ہیں اور دنیا کا سارا نظام کچھ رک سا گیا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ میں مختلف ممالک میں سارس، ایبولا اور مرس سیمت کئی وائرسز آئے لیکن ان پر بہت جلد قابو پا لیا گیا لیکن کورونا کو دنیا میں پھیلے ہوئے 6 مہینوں سے زیادہ وقت ہوچکا ہے لیکن اس کے پھیلاؤ اور ہولناکی میں کمی کے بجائے روز بروز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
سائینسی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس پہلی دفعہ سامنے نہیں آیا ہے بلکہ دنیا میں اس سے پہلے مختلف اوقات میں اس قسم کے وائرس کے چھ اقسام سامنے آچکی ہے۔ اگر ایسا وائرس پہلے خطرناک نہیں تھا تو کیا وجہ اب یہ ہولناک ثابت ہو رہا ہے؟ اس حوالے سے چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف بائیو انفارمیٹک ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ ڈاکٹر فیصل نوروز خان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس زیادہ اس لیے خطرناک ہوتا جارہا ہے کہ یہ بہت تیزی سے پھیلتا جارہا ہے اس سے پہلے جو وائرسز جو دنیا میں انہوں نے تباہی ضرور پھیلائی پراتنی تیزی سے نہیں جس قدر تیزی سے کورونا وائرس دنیا میں پھیلا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا خاندان کے جو پہلے 6 اقسام سامنے آچکی ہیں ان کے نام ہیں 22نائن ای، ایل ایل 63، فورسی 43، ایچ کے 41، مرس، سارس ہیں جسے سیویئرایکیوٹ رسپائریٹری سنڈروم کہا جاتا ہے
سارس وائرس 2002 اور 2003 میں پھیلا تھا جس سے کل 8 ہزار 400 افراد متاثر ہوئے اور 812 اموات ہوئی، اس کی شرح اموات کی شرح 6۔9 فیصد تھی۔
مرس 2012 میں آیا جس سے کل 2519 افراد متاثر ہوئے اور 34 فیصد اموات کے ساتھ 866 لوگ اس وائرس کی وجہ سے جان سے گئے۔
موجودہ وائرس کو سائینسی زبان میں سارس کوویڈ ٹو کہتے ہیں جو دسمبر2019 میں آیا۔ یہ دنیا میں اب تک سامنے آنے والا ساتواں کورونا وائرس ہے جس نے پوری دنیا میں تباہی مچائی ہوئی ہے اور اب تک 1 کروڑ سے زائد لوگ متاثر کرچکا ہے اور پانچ لاکھ افراد اس کی وجہ سے ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
کہا جاتا ہے پاکستان میں پھیلنے والا کورونا وائرس دوسرے ممالک میں پھیلنے والے کورونا وائرس سے مختلف ہے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل نوروز نے کہا انہوں نے اس پرجو تحقیق کی اور پاکستان میں اور باقی دنیا میں موجود وائرس کی ساخت کا تقابلی جائزہ لیا تو اس سے ان کو پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں پھیلنے والا وائرس وہی ہے جو باقی دنیا میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چائنا سے براہ راست وائرس نہیں آیا بلکہ یہ ایران سے آنے والے لوگوں کے ذریعے آیا اس کے علاوہ اٹلی اور یورپ سے جو لوگ پاکستان میں آئے ان کی وجہ سے یہاں پھیلا۔
ڈاکٹرفیصل نوروز نے کہا کہ پاکستان میں وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد کم اس لیے ہے کیونکہ یہاں پر زیادہ افراد نے ابھی تک کورونا ٹیسٹس بھی نہیں کئے اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں’ ایسا ہوسکتا ہے کہ پاکستانی لوگوں میں وائرس کے خلاف قوت مدافعت زیادہ ہو، پاکستانیوں کو کچھ ویکسینیشن بھی ہوچکی ہیں اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگ مختلف قسم کے اینٹی بیاٹکس بھی استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا البتہ ایک بات یہ بھی ہے وائرس جس ملک میں بھی جاتا ہے تو اس میں تھوڑی بہت تبدیلیاں آتی ہیں اس کی ساخت میں تبدیلی آنے سے اس کے اندر بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت میں کمی یا زیادتی ہوسکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس سارس کی ہی ایک قسم ہے جو اس سے زیادہ تباہی پھیلارہا ہے جبکہ کووڈ 19 اور مرس کی ساختوں کا تجزیہ کرنے سے سائینسدانوں کو پتہ چلا ہے کہ ان دونوں میں 84 سے لے کر 86 فیصد تک مماثلت پائی گئی ہے۔