خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

”اورنگ زیب بیتابؔ بھی ہم سے روٹھ گئے”

عثمان خان

شمال وزیرستان نوراک کے مقام پر مین میران شاہ بنوں روڈ پر مرسی خیل کے قریب ایک ٹریفک حادثہ کے نتیجے میں پشتو ادب کے ایک نامور شاعر اورنگ زیب بیتابؔ کے انتقال نے صوبہ ہی نہیں دنیا بھر میں پشتو زبان و ادب سے شغف رکھنے والوں کو اداس کر دیا ہے۔

نمائندہ ٹی این این کی جانب سے حادثہ کی اطلاع موصول ہوئی تو شروع میں یہ ایک معمول کی خبر ہی لگی کہ شمالی وزیرستان میں ایک ٹریفک حادثہ میں ایک شخص جاں بحق جبکہ تین زخمی ہو گئے لیکن اگلی ہی سطر میں جاں بحق ہونے والے شخص کا نام پڑھا تو دل نے جیسے دھڑکنا چھوڑ دیا۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں سینئر صحافی احسان داوڑ نے اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا، ”اورنگ زیب بیتابؔ بھی ہم سے روٹھ گئے، ہمارے بہت پیارے دوست اور انتہائی اچھے اور شریف انسان انجینئر اورنگ زیب (ایس ڈی او سی اینڈ ڈبلیو (بلڈنگ)) روڈ ایکسڈنٹ میں وفات پا گئے ہیں، یقین نہیں آ رہا کہ وہ اب ہم میں نہیں رہے۔

احسان داوڑ کے مطابق اورنگ زیب، جو اپنے اشعار میں بیتاب تخلص استعمال کرتے تھے، صرف ایک انجنیئر نہیں تھے بلکہ پشتو زبان کے ایک رومانٹک شاعر بھی تھے جو رومانس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے نبض پر بھی ایک انگلی ہمیشہ رکھا کرتے تھے، ”شدت پسندی اور دہشت گردی کی لہر سے پہلے ٹوچی ادبی ٹولنہ میر علی شمالی وزیرستان کی بنیاد رکھنے میں بیتاب صاحب نے مرکزی کردار ادا کیا تھا اور جب بھی مشاعرہ ہوتا وہ دل کھول کر خرچ کیا کرتے تھے۔”

انہوں نے بتایا کہ ہم صرف ایک انجنیئر سے نہیں بلکہ پشتو کے ایک اچھے ادیب اور شاعر سے بھی محروم ہو گئے، ”موت بھی کیسے کیسے کھیل کھیلتی ہے، اللہ تعالی اورنگ زیب کو دائمی سکون اور خوشیاں نصیب فرمائے اور اہل خانہ کو اس بھاری صدمے کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ( غم دے ڈیر دروند دا بیتاب صاحب!)۔”

ٹی این این کے ساتھ خصوصی بات چیت میں مرحوم کے بچپن کے ساتھی اور دوست زاهد الله کاني نے بتایا کہ بیتاب ایک شفیق اور بشردوست انسان تھے، اعلیٰ اخلاق اور ادبی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیت تھے، وہ ”ٹوچی ادبی ٹولنہ” کے بانیوں میں سے ایک تھے اور اس انجمن کے پہلے سینئر ناےب صدر بھی رہ چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ متحوم سرکاری ملازمت کی وجہ سے بہت مصروف رہتے تھے لیکن ادب کے ساتھ شوق و ذوق بھی بہت تھا اور تمام تر مصروفیات کے باوجود ادبی نشستوں میں باقاعدہ حاضری دیتے تھے۔

زاهد الله کے مطابق بیتاب صاحب کے کلام کا بعض حصہ نامور شاعر عمر دراز مرحوم کی کتابوں میں بھی شائع ہو چکا ہے، اس کے علاوہ مختلف ادبی تنظیمیں ان کا کلام شائع کر چکی ہیں، ان کی اپنی کتاب بھی زیور طباعت سے آراستہ ہونے کے لئے تیار تھی تاہم زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہیں کیا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button