قومی

پی ٹی وی کی پہلی براڈ کاسٹر کنول نصیر کے بعد حسینہ معین بھی انتقال کر گئیں

پاکستان کی پہلی خاتون براڈ کاسٹر کنول نصیر کی وفات کے بعد برصغیر ہی نہیں عالمی سطح پر ڈرامہ نگاری کے حوالے سے نام کمانے والی حسینہ معین بھی 79 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔

جمعرات کی شام خبر ملی کہ کنول نصیر 73 برس کی عمر میں اسلام آباد میں قلیل علالت کے بعد وفات پا گئی ہیں اور جمعے کی صبح خبر آئی کہ کراچی میں مقیم ڈرامہ نگار حسینہ معین چل بسی ہیں۔

اہلخانہ کے مطابق حسینہ معین طویل عرصے سے کینسرکے مرض میں مبتلا تھیں، جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب حرکت قلب بند ہونے سے وہ راہی عدم کو سدھار گئیں۔ ان کی نماز جنازہ بعد نماز عصر نارتھ ناظم آباد بلاک آئی میں ادا کی گئی اور انہیں سخی حسن قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، گورنر سندھ عمران اسماعیل اور صدر آرٹس کونسل احمد شاہ سمیت متعدد شخصیات نے حسینہ معین کے انتقال پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے اور مرحومہ کی مغفرت، درجات کی بلندی اور لواحقین کے لئے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔

صدر مملکت عارف علوی کی اہلیہ ثمینہ علوی نے نامور ڈرامہ نگار حسینہ معین کے انتقال پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ میری ایک بہترین استاد تھیں جب کہ مجھے ان سے ملاقات کا اعزاز بھی حاصل ہے، ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی تاہم آج پاکستان نے ایک لیجنڈ کو کھودیا ہے۔

واضح رہے کہ ممتاز مصنفہ، مکالمہ نگار اور ڈرامہ نویس حسینہ معین 20 نومبر 1941ء کو بھارت کے شہر کان پور میں پیدا ہوئی تھیں۔ حسینہ معین نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی اور تقسیم ہند کے بعد ان کا گھرانہ راولپنڈی میں آباد ہوا مگر جلد ہی لاہور منتقل ہو گیا۔ 50 کی دہائی میں کراچی آئیں اور اپنی خداداد صلاحیت کی بنا پر بطور ادیب لکھنا شروع کیا۔

انہوں نے 1960ء میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین سے گریجویشن کیا، 1963ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور تعلیم کے آخری برسوں میں لکھنا شروع کر دیا۔

حسینہ معین کے ٹیلی وژن کیریئر کا آغاز 1969ء میں ہوا جب ’’عید کا جوڑا‘‘ کے نام سے تحریر کردہ  ان کا ڈرامہ بے حد پسند کیا گیا۔ اُنہوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے پاکستان اور بیرون پاکستان بہت سے یادگار ڈرامے لکھے۔

ان کے مشہور ڈراموں میں ’’پرچھائیاں، دھوپ کنارے، انکل عرفی، تنہائیاں، پل دو پل، دھند، بندش، تیرے آجانے سے، شہ زوری، کرن کہانی، زیر زبر پیش، اَن کہی، گڑیا، آہٹ، پڑوسی، کسک، نیا رشتہ، جانے انجانے، آنسو، شاید کہ بہار آجائے، آئینہ، چھوٹی سی کہانی، میری بہن مایا‘‘ کے علاوہ دیگر مشہور ڈرامے شامل ہیں۔

حسینہ معین نے راج کپور کی فرمائش پر بھارتی فلم ’’حنا‘‘ کے مکالمے بھی لکھے جو 1991ء میں نمائش پذیر ہوئی تھی۔ پھر اُنہوں نے ایک پاکستانی فلم ’’کہیں پیار نہ ہو جائے‘‘ لکھی تھی۔

قبل ازیں وہ پاکستانی فلم ’’نزدیکیاں‘‘ اور وحید مراد کی فلم ’’یہاں سے وہاں تک‘‘ کے مکالمات بھی لکھ چکی تھیں۔ اُنہیں حکومت پاکستان کی طرف سے 1987ء میں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی بھی دیا گیا تھا۔

دوسری جانب کنول نصیر معروف براڈ کاسٹر موہنی حمید (آپا شمیم) کی بیٹی تھیں اور انہیں پانچ دہائیوں تک پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے لیے بطور براڈکاسٹر کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ڈراموں میں بھی کام کیا۔

کنول نصیر نے 26 نومبر 1964 کو پی ٹی وی کے قیام کے وقت پہلی اناؤنسمنٹ کی تھی۔ انہوں نے 17 سال کی عمر سے ٹی وی میں کام کرنا شروع کیا، ٹی وی ڈرامے کی پہلی ہیروئن بھی کنول نصیر تھیں۔

ٹی وی سکرین پر پہلی بار ’میرا نام کنول حمید ہے۔ آج پاکستان میں ٹیلی ویژن آ گیا ہے۔ آپ کو مبارک ہو‘ کے الفاظ بھی ادا کیے۔ خواتین کے پروگرامز ہوں یا قومی و بین الاقوامی ایونٹس، کنول نصیر میزبانی کے فرائض سرانجام دیتی تھیں۔
انہوں نے دیگر زبانوں میں بھی کام کیا جن میں نو برس تک انگریزی کا پروگرام اور اس کے علاوہ پوٹھوہاری زبان میں سانجھا نامی پروگرام شامل ہے۔ انھیں لاتعداد ایورڈ ملے۔
خیال رہے کہ دنیا سے جاتے وقت بھی وہ ریڈیو سے اپنا رابطہ برقرار رکھے ہوئے تھیں اور مختصر گفتگو کے ساتھ سامعین کی فرمائش پر ان کے لیے پرانے گانے چلایا کرتی تھیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button