بلاگزجرائم

چارسدہ میں بھیک مانگنے سے انکار پر دو بہنیں قتل

خالدہ نیاز

چارسدہ میں بھیک مانگنے سے انکار پر دو بہنوں کے قتل کیس میں نیا موڑ آ گیا۔ تھانہ پڑانگ پولیس کا کہنا ہے کہ خواتین کو بھیک مانگنے سے انکار پر قتل کیا گیا جبکہ ایک مقتولہ خاتون کے شوہر کے مطابق دونوں بہنوں کو بھانجے نے گھریلو تنازعہ پر قتل کیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ باچا خان ولد اسلم خان سکنہ پڑانگ اور کاشف ولد مجاہد سکنہ سرڈھیری نے گھر میں گھس کر خواتین پر فائرنگ کی جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئیں۔

پولیس کے مطابق واقعے کی ایف آئی آر باچا خان اور کاشف کے خلاف درج کر دی گئی ہے تاہم ابھی تک ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی جبکہ پولیس کا سرچ آپریشن جاری ہے۔

پولیس نے بتایا کہ قتل ہونے والی خواتین ملزمان کی خالائیں تھیں اور یہ دونوں ان کے کہنے پر بھیک مانگتی تھیں تاہم جب انہوں نے بھیک مانگنے سے انکار کیا تو ان دونوں خواتین کو قتل کر دیا گیا۔

دوسری جانب قتل کی گئی ایک خاتون فہمیدہ کے شوہر وصال خان نے بتایا کہ ان کی بیوی اور اس کی دوسری بہن آمنہ جن کی عمریں 56 سے 60 سال کے درمیان تھیں، ان کو ان کے اپنے بھانجے نے قتل کیا ہے، ان کے آپس میں کچھ اختلافات چل رہے تھے جس کی بنا پر ان کو قتل کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ دوسری خاتون آمنہ ان کی سالی تھی جو ان کے ساتھ ہی رہ رہی تھی تاہم انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ یہ دونوں خواتین بھیک مانگتی تھیں اور اب بھیک مانگنے سے انکار پر ان کو قتل کیا گیا لیکن دوسری جانب پولیس نے ایف آئی آر میں ان دونوں بہنوں کو قتل کرنے کی وجہ بھیک مانگنے سے انکار بتائی ہے۔

یاد رہے گزشتہ برس کے اواخر میں انٹیلی جنس بیورو نے پشاور کی ضلعی انتظامیہ کے پاس ایک رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ان گداگروں کی ماہانہ آمدنی گریڈ اکیس اور بائیس کے آفیسرز سے زیادہ ہے۔ اسی رپورٹ کی بنا پر پشاور میں پیشہ ور گداگروں کے خلاف ایک مہم بھی شروع کی گئی تاہم وہ ناکامی سے دوچار ہو گئی اور بھکاری اب بھی کھلے عام سڑکوں پر گھومتے نظر آ رہے ہیں۔

پشاور کی انتظامیہ نے گداگری کے خلاف ایکشن ضرور لیا تھا اور کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی تھیں تاہم جہاں دیگر اضلاع کی انتظامیہ نے اس طرح کی کسی کاروائی سے گریز کیا تو وہاں پشاور کے ضلعی حکام بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ گئے۔

انٹیلی جنس رپورٹ میں پشاور میں گداگروں کے 17 ٹھیکیداروں کا انکشاف بھی ہوا تھا۔ ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سپیشل برانچ کے ایک ذمہ اہلکار نے بتایا کہ ان گینگز کے پاس بچوں اور خواتین سمیت مستقل گداگر ہوتے ہیں جنہیں یہ دیہاڑی پر رکھتے ہیں۔ ان گینگز نے آپس میں شہر کے علاقے تقسیم کر رکھے ہوتے ہیں جہاں پر دوسرے گینگ کا گداگر نہیں جا سکتا اور نہ یہ لوگ وہاں آزاد گداگروں کو چھوڑتے ہیں۔ ان لوگوں کا ایک خاص مقام ہوتا ہے جہاں پر شام کو یہ جمع ہوتے ہیں اور جمع شدہ رقم سے اپنا حصہ رکھ کر باقی اپنے ٹھیکیدار کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہ ٹھیکیدار یا سرغنہ اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ جو بھکاری ایک دفعہ ان کے گینگ میں آ جاتا ہے انہیں پھر خودمختار نہیں ہونے دیا جاتا اور کوئی الگ ہو بھی جائے تو اس کو اتنا تنگ کرتے ہیں کہ وہ دوبارہ گینگ میں شامل ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب ان کو قتل کر دیا جاتا ہے تو بھی ان کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ان گینگز میں چند ایسے بھی ہیں جن کے سربراہان خواتین ہوتی ہیں۔ یہ گینگز زیادہ تر خانہ بدوشوں کے ہیں جو کہ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔

خواتین اور خواجہ سراؤں کے حقوق پہ کام کرنے والی تنظیم ”د حوا لور” کی انتظامی افسر خورشید بانو کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں خواتین پر تشدد اور ان کو قتل کرنے میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن مجرم یا تو پکڑے نہیں جاتے اور اگر بعض کیسز میں پکڑے جائیں تو بھی خاندانوں میں صلح ہو جاتی ہے اور یوں مجرم بری ہو جاتے ہیں آسانی سے۔

انہوں نے بتایا کہ خواتین اور بچے بھیک مانگنے اور باقی جرائم میں اس لیے ملوث ہو رہے ہیں کیونکہ غربت پہلے سے موجود ہے اور اب مہنگائی اور کرونا وائرس نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔

خواتین کو قتل کرنے کے کیسز میں اضافے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے جو قوانین بنے ہیں ان پہ عمل درآمد نہیں ہوتا، لوگوں میں اس حوالے سے شعور کی کمی ہے اور لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ قانون کے ذریعے انصاف حاصل کر سکیں۔

خورشید بانو نے اس بات پہ زور دیا کہ خواتین کے حقوق کے لیے جو قوانین بنے ہیں ان پہ عمل درآمد کی بہت ضرورت ہے اور اس کے ساتھ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی اور خواتین کے حوالے سے مردوں کی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button