صحت

 کورونا ویکسین سے بانجھ پن اور حمل ضائع ہونے کے متعلق افواہوں کی حقیقت

 

ناہید جہانگیر

طبی ماہرین کے مطابق کورونا  ویکسین سے نہیں، علاج کے دوران دی جانے والی سٹیرائیڈ سے لڑکیوں کے چہروں پر بال نکل آتے ہیں کیونکہ علاج کے لئے مریض کو سٹیرائید دینا ضروری ہوتا ہے۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے پلمونولوجی ڈیپارٹمنٹ اور کورونا کمپلیکس کے ہیڈ  پروفیسرڈاکٹر ظفر اقبال نے بتایا کہ کورونا مریض کو جو سٹیرائیڈ دی جاتی ہے اس سے چہرے پر بال نکل سکتے ہیں لیکن وہ بھی مستقل نہیں رہتے۔ جیسے ہی سٹیرائیڈ کا اثر کم ہوتا ہے توعارضی طور پرنکلنے والے بال ختم ہو جاتے ہیں لیکن کورونا ویکسین سے چہرے پر کوئی بال نہیں نکلتے تاہم لوگوں میں یہ ایک عام افواہ ہے کہ کورونا ویکسین سے لڑکیوں یا خواتین کی داڑھی مونچھ نکل آتی ہیں۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو دو سال ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ اس وائرس کوکچھ لوگ ماننے سے انکاری ہیں اور کچھ اس سے جڑی افواہوں پر یقین کر لیتے ہیں۔  اس حوالے سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا  افواہوں کی زد میں ہے۔

پشاور شہر کی زینت خاتون نے خود ویکسین لگوائی ہے لیکن بچی کو لگوانے سے گریزاں ہیں وجہ پوچھنے پرانھوں نے کہا کہ اپنی بچی کو خود بانجھ بناؤ،مختلف قسم کی بیماریوں میں اپنے ہاتھوں سے مبتلا کردوں؟

زینت کی بیٹی نہم جماعت کی طالبہ ہے حکومت کی جانب سے جاری ہدایات کے مطابق اب ہر طالب علم کو بھی سکول میں کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جارہی ہے۔ زینت نے بتایا کہ وہ بالکل بھی اپنی بچی کو ویکسین لگوانے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ کورونا ویکسین کے بہت سارے سائیڈ ایفکٹس ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کے پاس تو کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے لیکن لوگوں سے سنا ہے کہ یہ غیر ملکی ایجنڈا ہے تاکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکیں اور آنے والی نسل کسی نا کسی طریقے سے خراب کریں۔ اس کورونا ویکسین سے نوجوان نسل بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہیں گے، لڑکیوں کی ماہواری بھی بے قاعدہ ہوجاتی ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے اعداد و شمار کے مطابق 17 دسمبر 2021 تک پاکستان میں 6 کروڑ تک جبکہ خیبر پختونخوا میں تقریبا 6 لاکھ سے کم  افراد نے کورونا سے بچاو کی ویکسینیشن کروائی ہے۔

خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر سے ملنے والی معلومات کے مطابق 27 دسمبر کو 24 گھنٹوں کے دوران  تقریباً 44 ہزار کورونا کے ٹیسٹ کرائے گئے جن میں 301 ٹیسٹ مثبت آئے۔

2 مریضوں کی موت واقع ہوئی جبکہ 6 سے زیادہ مریض آئی سی یو میں داخل ہیں۔ 27 دسمبر 2021 کو 24 گھنٹوں کے دوران 71 لاکھ کے قریب لوگوں کو کورونا ویکسینشن کا پہلا ڈوز دیا گیا جبکہ ساڑھے 8 لاکھ کے قریب لوگوں کو دوسرا ڈوز  دیا گیا۔

زینت کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے ڈاکٹر زبیر بھٹی جو لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں کورونا ویکسینشن سنٹر کے انچارج اورترجمان ہیں نے بتایا کہ تمام والدین اپنے بچوں کو ضرور ویکسین لگوایں۔ بانجھ پن کی افواہیں غلط ہیں اور ان میں کوئی صداقت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے 18 سال سے 15 اور اب 12 سال تک بچوں کو ویکسین لگانے کی ہدایت کی گئی ہے اور سائینوفارم لگائی جارہی ہیں اور جہاں تک خواتین مہں ماہواری کی بات ہے تو اسکے بے قاعدہ ہونے کے کئی اور وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔ اس قسم کی شکایت کورونا ویکسین کی وجہ سے ابھی تک سامنے نہیں آئی۔

چارسدہ کی فاطمہ بھی کورونا ویکسین سے انکاری ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ حاملہ ہیں اگر ویکسین لگوائے گی تو اسکا حمل ضائع ہوجائے گا اور پھر دوبارہ ماں بننے کی اہل  نہیں رہے گی اس لیے وہ ویکسین لگوانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔

اس حوالے سے ڈاکٹر زبیر نے بتایا کہ سنی سنائی باتوں پر کان نا دھرے جائیں۔  حاملہ خواتین کے لیے بھی کورونا ویکسین محفوظ ہے،ماں اور بچے کو  کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

انہوں نےمزید کہا کہ اگر حاملہ خاتون کو کورونا لاحق ہوجائے تو ماں اور بچے دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔اس لئے اپنے لئے اور اپنے بچے کے لیے کورونا سے بچانے کے لیے ویکسین ضرور لگوائیں۔ وہ مائیں جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں وہ بھی ویکسین لگوا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ویکسین سے شیرخوار بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

پشاور کی خاتون بس پری بچوں کو ویکسینیشن کے حق میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا اس کے کافی نقصانات ہیں۔ خود تو اس لیے ویکسین لگوائی ہے کہ میں اب تو عمر رسیدہ ہوں, شادی ہوگئی ہے اور بچے بھی ہیں لیکن اپنے بچوں کو کبھی بھی ویکسینیشن کی اجازت نہیں دوں گی۔

اپنے انکار کی وجوہات کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ دو سال کے بعد مرنا،بانجھ پن اور لڑکیوں کے مونچھیں داڑھی بھی نکلنا ویکسین لکوانے کے اثرات میں شامل ہیں۔

اس حوالے سے ڈبلیو ایچ او کے اہلکار نے بتایا کہ دنیا بھر میں جو بھی ویکسین یا میڈیسن ہیں سب کا کچھ نا کچھ معمولی سائیڈ ایفکٹ ہوتا ہے،اگر کوئی ڈسپرین بھی بغیر ڈاکٹر کے نسخے یا ہدایت کے استعمال کریں یا بے جا استعمال کریں تو نقصان دہ ہیں ،اسی طرح کورونا سے بچاؤ کے ویکسین کا بھی کوئی نا کوئی سائیڈ ایفیکٹ ضرور ہوگا ،جس میں بخار،سر درد یا معمولی سوجن شامل ہیں لیکن داڑھی مونچھ،دم، بانجھ پن،حمل ضائع ہونا،یا دو سال کے بعد مرنا طب کی سمجھ سے باہر ہیں یہ صرف افواہیں ہیں اور ابھی تک کوئی ایسی تحقیق سامنے نہیں آئی جن سے ان تمام شکوک یا افواہوں کی تصدیق ہوسکے۔

عالمی ادارے صحت سے  اتفاق کرتے ہوئے پروفیسر ظفر اقبال نے بھی بتایا کہ دوسالوں میں نا کوئی ایسی ریسرچ سامنے آئی ہے، نا کوئی ایسا کیس سامنے آیا جس سے ثابت ہو کہ کورونا ویکسین کی وجہ سے کوئی بانجھ ہوا ہو یا کسی کا حمل ضائع ہوا ہو ہر بیماری کے اپنے اپنے وجوہات ہیں۔ کورونا ویکسین کے بعد بھی بہت سے ایسے جوڑے ہیں جن کے ہاں بچوں کی پیدائش ہوئی ہے۔ ویکسین سے پہلے بھی ایسی خواتین ہیں جن کے حمل ضائع ہوتے رہے ہیں یا وہ بچے کے پیدائش سے محروم ہیں۔

ڈاکٹر ظفر اقبال نے کہا کہ بعض اینٹی ویکسین لوگ مختلف قسم کی افواہیں پھیلا رہے ہیں انکا مقصد لوگوں میں غلط فہمی پھیلانا ہے اور کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہر فیلڈ کا اپنا اپنا ماہر ہوتا ہے کسی بھی ویکسین یا دوائی کے فوائد یا نقصانات میڈیکل فیلڈ درست بتا سکتا ہے نا کہ کوئی بھی غلط افواہ پر یقین کرکہ خود اور آنے والی نسل کو صحت کی سہولت سے محروم کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button