لائف سٹائلماحولیات

نوشہرہ میں پانی کی قلت، وجہ موسمیاتی تبدیلی یا کچھ اور؟

موسیٰ کمال یوسفزئی

نوشہرہ خیبر پختونخوا کے بڑے ضلعوں میں شمار ہوتا ہے مگر حالیہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے نوشہرہ کے بیشتر علاقوں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے 71 سالہ گل بادشاہ نے کہا کہ 10، پندرہ  سال پہلے ہم گندم، سبزیاں اور مختلف میوہ جات کاشت کرتے تھے لیکن اب ہم نے اس زمین پر یوکلیپٹس یا سفیدے کا باغ لگایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں پہلے بارشیں اپنے وقت پر ہوتی تھیں جس سے انہیں یہ اندازہ ہو جاتا تھا کہ کس موسم اور کس وقت میں کون سی فصل اُگ سکتی ہے لیکن اب بارشوں کا سلسلہ بھی بدل گیا ہے، پہلے جس موسم میں بارشیں ہوتی اب نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہیں تو وہ بارش سیلاب کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے فصلوں پر بھی منفی اثرات پڑے ہیں اور اب زیادہ تر کسان کھیتی باڑی نہیں کرتے، ہم بھی ان کھیتوں پر کھیتی باڑی کرتے تھے مگر جب ہمیں اندازہ ہوا کہ یہاں پانی کا مسئلہ زیادہ ہے تو ہم نے بھی سوچا کہ کچھ نہ کچھ تو اس زمین سے فائدہ لینا چاہئے۔

ان کے بقول خیبر پختونخوا حکومت ان دنوں میں لوگوں کو بیلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت پودے اور لگانے کے پیسے دیتے تھے اس لیے ہم نے بھی سوچا کہ یہاں سبزیاں، گندم اور دیگر فصل تو اگتے نہیں، بہتر ہے کہ ہم اسی منصوبے کے تحت اس میں پودے لگائیں۔

گل بادشاہ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ حکومت نے مجھے پانچ ہزار سفیدے کے پودے دئے اور ایک پودہ لگانے پر اس وقت کی حکومت ہمیں 44 روپے دیتے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کا انہیں بھی اندازہ ہے کی یوکلپٹس (سفیدے) کے پودے کو پانی کا دشمن کہا جاتا ہے لیکن ان کے کھیت خراب ہورہے تھے اس لیے وہ اپنی زمینوں پر یہ پودنے لگانے کے لیے تیار ہوگئے۔

ڈسٹرکٹ فارسٹ آفس نوشہرہ کے مطابق ضلع نوشہرہ میں 2013 سے 2018 تک بیلین ٹری سونامی منصوبہ کے تحت 15 لاکھ گیارہ ہزار آٹھ سو پچاس درخت لگائے گئے۔

فارسٹ گارڈ سجاد علی نے بتایا کہ وہ تین سالہ پراجیکٹ کے تحت یہ درخت لگاتے اور تین سال تک ہم ان پودوں کی دیکھ بال کرتے تھے جب پودے بڑے ہو جاتے تب وہ ان درختوں کو مالک کے حوالے کرتے اور ساتھ ہی ان کو ہم یہ بھی بتاتے کہ ان کی کٹائی ایک سال تک نہ کریں جبکہ کٹائی والے مرحلے کو دو حصوں میں تقسیم کریں تاکہ یہ ختم نہ ہو جائیں۔

نوشہرہ میں جہاں بیلین ٹری منصوبے کے تحت درخت لگائے گئے ہیں ان میں مانکی شریف، مصری بانڈہ، اضاخیل، میراجی، کٹی خیل، کاکا صاحب اور دیگر گاؤں شامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے تحت ہم نے 95 فیصد تک کامیابی حاصل کی تھی مطلب ہر ایک پراجیکٹ کی کامیابی کی شرح 90 سے لے کر 95 فیصد تک تھی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اگر اس دوران کچھ پودے خراب بھی ہو جاتے تو ہم دوبارہ وہاں پودے لگاتے اور کامیابی کی سطح برقرار رکھتے تھے۔جب ان سے پوچھا کہ ان میں کون سے پودے زیادہ تعداد میں لگائے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر یوکلپٹس کے پودے لگائے گئے ہیں۔

دوسری جانب نوشہرہ کے سیدو خیل علاقے سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ سماجی کارکن انیس خان نے بتایا کہ نوشہرہ میں پانی کی کمی صرف ایک گاؤں کا مسئلہ نہیں بلکہ اس ضلع میں جتنے بھی پہاڑی علاقے ہیں ان سب میں پینے کے صاف پانی اور کمی کا مسئلہ چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں انہوں نے گاؤں پیران کی ایک ویڈو بھی جاری کی تھی جہاں لوگ اور جانور ایک ہے کنویں سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جگہ پر کچھ سال پہلے بارش کی بعد پانی بہتا تھا مگر اب بارش میں بھی یہاں پر پانی نہیں آتا جس طرح دنیا میں ہر گزرتے دن کی ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں اسی طرح یہاں پر بھی پانی کا مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اسی مسئلے کو لے کر ہم نے حکومت، ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں سے بات بھی کی ہے مگر وہ تو وقتی اقدامات کر دیتے ہیں لیکن اس مسئلے کے مستقل حل کے لئے کوئی بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھاتے۔ اگر یہ مسئلہ اس طرح چلتا رہا تو سارا علاقہ پانی کی کمی سے بری طرح متاثر ہوجائے گا۔

گاؤں سیدو خیل کے ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہاں گذشتہ کچھ سالوں میں غیر قانونی طور پر 10 سے 15 تک کرش پلانٹ نصب کئے گئے ہیں۔ ہر کرش پلانٹ میں 40 سے 60 تک بندے کام کرتے ہیں۔ ان کرش پلانٹس کی آلودگی یہاں ساری گاؤں میں پھیلتی ہے جس سے یہاں کا ماحول اور بھی آلودہ ہو جاتا ہے۔

ماہر ماحولیات ڈاکٹر آصف خان جو پشاور یونیورسٹی کی ماحولیاتی ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر ہیں۔ نے اس حوالے سے بتایا کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہمارے خطے میں پانی کی کمی کا شدید مسئلہ سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آبادی بھی بغیر کوئی منصوبہ بندی کے بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے فیکٹریوں اور ٹاؤن شپس کے لئے بنائی گئی پالیسی پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا۔

ڈاکٹر آصف خان نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں اکثر لوگ یوکلپٹس (یعنی سفیدے) کے درخت لگاتے ہیں اور اس درخت کو واٹر سیرنج کا نام دیا گیا ہے۔ بہت زیادہ مقدار میں پانی کو جذب کرتا ہے، ان چیزوں کا خیال رکھنے سے ہم پانی کی کمی کا مقابلہ کر سکتے ہیں کیونکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔

دوسری طرف پانی کی کمی کی وجہ سے لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں اور پانی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ چشموں او ندی نالوں کا آلودہ پانی پیتے ہیں۔

اس حوالے سے ہم نے قاضی حسین احمد میڈیکل کمپلیکس کے ڈاکٹر نیاز علی سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ گندہ پانی پینے سے انسان مختلف بیماریوں کی زد میں آ سکتا ہے۔ جسے گیسٹرو انٹریالوجی بیماری کہتے ہیں جس میں معدہ کی بیماری پیٹ کی خرابی اور اسی طرح خون کی مختلف بیماریاں شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان میں بعض بیماریاں مستقل ہوتی ہیں اور کچھ عارضی طور پر انسان کو متاثر کرتی ہیں مگر اس کا علاج وقت پر نہ ہو جائے تو وہ بیمارِیاں پھر مستقل ہو جاتی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر نیاز علی نے بتایا کہ صاف پانی کا مسئلہ نوشہرہ اور پورے پاکستان میں بہت زیادہ ہے۔ اس حوالے سے کوئی مخصوص ڈیٹا ابھی تک اکھٹا نہیں کیا گیا ہے مگر یہ بیماریاں کافی زیادہ ہے اور ان وارڈ میں ان مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس بیماری کے مریضوں کی تعداد کے حوالے سے ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا ہے مگر اس بیمارِی سے متاثرہ افراد کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کی روک تھام تب ممکن نہ ہو گی جب تمام متعلقہ ادارے یہ بات یقینی بنائیں کہ ٹیوب ویل، کنویں اور پانی کی سکیموں میں آلودہ پانی نہ مل جائے اور اس کے لیے کوئی متبادل راستہ اپنائے کہ آلودہ پانی اس میں مکس نہ ہو جائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button