ماحولیاتی آلودگی کے قبائیلی اضلاع کی آب وہوا پر منفی اثرات
محراب آفریدی
ماحولیاتی آلودگی اب قبائلی علاقوں میں بھی بڑھنے لگی ہے۔ پہلے قبائلی علاقوں کی آب و ہوا آلودگی سے پاک صاف ہوا کرتی تھی لیکن اب ٹرانسپورٹ ، دہشت گردی کی جنگ سے اب تک بے تحاشہ بارود کا استعمال اور انڈسٹریز کے قیام کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی پر انتہائی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
مقامی صحافی راحت شنواری اور خلیل جبران نے اس حوالے سے بتایا کہ قبائلی علاقے سطح سمندر سے کافی اونچائی پر واقع ہیں یہاں آب و ہوا مثالی ہے تاہم ماحول کو آلودگی سے بچانے اور انسانوں کو مختلف نوعیت کی بیماریوں سے بچانے کے لئے کوئی انتظامات نہیں ہے۔حتیٰ کہ عوام کی آگاہی کے حوالے سے کوئی پروگرامات دکھائی نہیں دیتے۔انہوں نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی اور ان کو مبینہ طور پر آگ لگانے سے تیراہ جیسی خوبصورت وادی کے پہاڑ جلد ہی بنجر اور خشک نظر آئینگے۔
مقامی سماجی تنظیموں کے عہدیداروں نے ماحول کی صفائی کو انسانی زندگی کے تحفظ کے لئے ضروری قرار دیا اور کہا کہ چونکہ پانی بنیادی ضرورت ہے تاہم یہاں پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں اگر حکومت اور متعلقہ محکمے قبائلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر چھوٹے بڑے معیاری بارانی ڈیم تعمیر کریں اور جہاں پانی بکثرت بہتا ہے وہاں جھیل قائم کریں تو اس سے پانی بھی ذخیرہ ہوگا۔ پانی کی زیر زمین سطح اوپر آجائیگی اور ماحول پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہونگے۔
سیاسی لوگوں نے کہا کہ کرپٹ حکام کی نااہلی کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں ہو رہے، یہاں قبائلی علاقوں میں لوگ تمام تر بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہیں۔ انضمام کی وجہ سے محکمے تو آئے لیکن ان کی کارکردگی زیرو ہے۔
مختلف جگہوں پر لنڈی کوتل اور جمرود کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیا گیا ہے جس سے ایک طرف آلودگی بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف کرش مشینوں کی وجہ سے گردو غبار نے نزدیکی رہنے والے گھرانوں کے افراد کو بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ سیاسی رہنماوں کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تحفظ کے ڈیپارٹمنٹ اور کنزیومر ڈیپارٹمنٹ کے متعلقہ حکام نے اس صورتحال پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں جس سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔