‘کورونا ٹسٹ مثت آیا تو ایسے لگا مجھ سے کوئی غیراخلاقی کام سرزد ہوا ہو’
افتخار خان
‘میرا کورونا ٹسٹ جب مثبت آیا تو گھر میں غم کا ایسا ماحول بن گیا جیسے میری گولیوں سے چھلنی لاش پہنچ گئی ہو، میں خود کو اپنی نظروں میں گرا ہوا محسوس کر رہا تھا اور ایسے لگ رہا تھا جیسے میں نے کوئی غیراخلاقی کام کیا ہو۔’
اپنی روداد بیان کرتے ہوئے قبائلی ضلع خیبر کے سینئر صحافی امیر زادہ نے بتایا کہ کورونا سے صحتیابی کے بعد اب انہیں احساس ہو گیا ہے کہ ایسا مریض بے جا طور پر شرمندگی محسوس کرتا ہے اور دیگر لوگ بھی ان کو کراہت کی نظروں سے دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے دکھ مزید بڑھ جاتے ہیں۔
امیر زادہ نے جمرود پریس کلب کے ایک ساتھی میں کورونا کی تصدیق کے بعد کلب کے دیگر اراکین کے ہمراہ اپنا بھی ٹیسٹ کروایا تو انہیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ نتیجہ مثبت آ سکتا ہے کیونکہ ان کے بقول انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں تھی اور نہ کوئی علامات ظاہر ہوئیں تھیں۔
اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے امیرزادہ کہتے ہیں، ”میں نے 15 مئی کو کورونا ٹیسٹ کے لئے نمونے دیئے لیکن چونکہ مجھ میں کوئی بھی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں اس لئے مطمئن تھا۔ ایک دن بعد رات 10 بجے مجھے ٹیسٹ رزلٹ وٹس ایپ پر ملا اور اس وقت ہم 7 دوست پشاور کے کارخانوں مارکیٹ میں ساتھی کے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے، افطار بھی ہم نے ایک ساتھ کیا تھا۔
مسیج دیکھتے ہی میں جیسے سکتے میں آ گیا، دوستوں کے پوچھنے پر انہیں بھی بتا دیا کہ میرا کورونا ٹسٹ نتیجہ مثبت آیا ہے، یک دم خاموشی چھا گئی اور سب قہقہے اچانک افسردہ ماحول میں تبدیل ہو گئے۔ اسی دوران وہاں سے میرے 4 دوست ایسے غائب ہوئے کہ کچھ بتایا بھی نہیں۔
باقی دو دوستوں نے پوچھا اب کیا کیا جائے، میں نے اپنے بھائی کو فون کر کے بتا دیا اور انہیں فوری طور پر گاڑی لانے کو کہا۔ اس دوران میرا بھائی گاڑی لے کر آیا اور میں دوستوں سے رخصت ہوا، راستے میں بھائی کو بتایا کہ فون کر کے سب گھر والوں کو بتا دیں کہ میرا کمرہ خالی کر دیں اور میرے بچوں سمیت کوئی بھی مجھ سے نہ ملے۔ میں خود گھر فون کرنا چاہتا تھا لیکن ہمت نہیں ہو رہی تھی۔
گھر پہنچا تو سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا لیکن اس وقت گھر کے جو حالات تھے، میرے والدین، بیوی بچے اور بہن، بھائی جتنے افسردہ تھے اس سے پہلے میں نے انہیں کبھی اتنا افسردہ نہیں دیکھا تھا۔ یہ شاید میری زندگی کا افسردہ ترین دن تھا۔ رزلٹ سے پہلے تک میں بالکل ٹھیک تھا لیکن مسیج ملنے اور گھر پہنچنے تک مجھے بخار چڑھ چکا تھا اور اب کافی تیز ہو چکا تھا اور ایک عجیب ذہنی دباؤ نے بھی مجھے آ گھیرا تھا۔
جیسے تیسے وہ رات گزر گئی، ساری رات ڈراؤنے خواب دیکھتا رہا، سخت بخار کی وجہ سے اگلے دن روزہ بھی نہ رکھا، سارے بدن اور بالخصوص گردن میں بہت زیادہ درد محسوس کر رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی میری گردن پر بیٹھے اسے مسلسل دبا رہا ہے۔
اس دن مجھے جس چیز سے جو تھوڑا بہت حوصلہ ملا وہ میری فیس بک پوسٹ تھی۔ میں نے پوسٹ کی کہ مجھے کورونا ہو گیا ہے تو چند ہی گھنٹوں میں سینکڑوں لوگوں نے کمنٹس اور ذاتی پیغامات میں نہ صرف مجھے حوصلہ دیا کہ بہت جلد سب ٹھیک ہو جائے گا بلکہ ہر ایک نے میری صحت کے لئے دعائیں بھی کیں جس سے میرا دل کچھ حد تک مطمئن ہو گیا۔
پہلے ہی دن میں نے گھر والوں کو قرنطینہ کمرے کے حوالے سے ہدایات بتائیں کہ میری بیوی کے علاوہ کوئی بھی اس دروازے کے قریب نہیں آئے گا۔ بیوی سے کہا وہ بھی صرف دروازے پر رکھے میز تک کھانا لا سکتی ہے جبکہ کمرے کے کسی بھی چیز کو انہیں ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں تھی۔
دوسرے اور تیسرے دن بخار تھوڑا کم تھا لیکن چوتھے روز میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس نے مجھے مزید خوفزدہ کر دیا۔
دوپہر کھانے میں سلاد کے لئے پیاز کاٹ رہا تھا، اس دوران ایک ٹکڑا منہ میں ڈالا تو کوئی ذائقہ محسوس نہیں ہوا، پھر اسے سونگھا تو بو بھی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ پھر جلدی جلدی لیمو سونگھا اور منہ میں ڈالا لیکن اس کی بو اور ذائقہ بھی نہیں تھا۔ اس کے بعد مالٹا اور پھر کھانے کے لئے تیار اور ظاہری شکل سے لذیذ نظر آنے والی چکن کڑاہی بھی چکھی لیکن سب چیزیں ایک جیسی بے ذائقہ تھیں۔ میں نے الماری کی جانب دوڑ لگا دی جہاں ایک کے بعد ایک پرفیوم سونگھی لیکن کسی کی بھی خوشبو محسوس نہ ہوئی۔
میں حواس باختہ ہو گیا کیونکہ مجھے کورونا کی ان علامات کا اندازہ نہیں تھا۔ میں اپنا یہ تجربہ بھی فیس بک پوسٹ پر ڈال دیا تو بہت لوگوں نے جواب دیا کہ نارمل ہے اور دو تین دن میں یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ لوگوں کے کمنٹس سے میں بھی نارمل ہو گیا لیکن دل میں یہ گھبراہٹ تھی کہ اگر ذائقہ نہیں ہو گا تو بھوک نہیں لگے گی لیکن اس وائرس کو شکست دینے کے لئے کھانا پینا نہایت ضروری تھا۔
یہ صرف میں اور میرا خدا جانتا ہے کہ اگلے تین دن میں نے کتنی بے دلی سے کھانا اور صحت کیلئے ضروری دوسری چیزیں کھائیں لیکن کبھی ایسا نہیں کیا کہ کسی وقت کا کھانا چھوڑ دیا ہو میں نے کیونکہ اس کی اہمیت اور نہ کھانے کے نقصانات کا مجھے خوب اندازہ تھا۔ اس دوران پیناڈول کے مسلسل استعمال کے ساتھ ساتھ ایک ڈاکٹر دوست کی جانب سے تجویز کردہ ایک سیرپ بھی لیا اور پھر چار دن بعد ہی میرے ذائقے اور سونگھنے کی حس واپس آ گئی۔
میرے ساتھ ٹسٹ دینے والے جتنے ساتھی کورونا پازیٹیو آئے تھے انہوں نے ایک ہفتے بعد دوبارہ ٹیسٹ دیئے جن میں زیادہ تر کے نتائج منفی آئے ہیں۔
دو دن بعد عید ہے، میں بھی چاہتا ہوں کہ یہ دن اپنے بچوں کے ساتھ خوب مستیوں میں گزاروں، دوستوں سے ملوں، گھوموں پھروں، رشتہ داروں کے ہاں جاؤں۔ اس لئے میں بھی ٹیسٹ کے لئے حیات آباد میڈیکل کمپلکس پہنچ گیا۔ ٹیسٹ کے نمونے دیئے اور واپس آ کر کمرے میں لیٹ گیا، سارا دن اور ساری رات کبھی خوشگوار لمحات کی یاد آتی تو کبھی موجودہ برے وقت کے خیالات۔ دوسرے دن رزلٹ سے میں نے امید باندھی تھی کہ ضرور منفی ہو گا کیونکہ مجھ میں بظاہر کورونا کی کوئی علامات باقی نہیں رہی تھیں لیکن نتیجہ دوبارہ مثبت آیا تو سارے خواب چکناچور ہو گئے، مجھ پر دوبارہ تیز بخار نے حملہ کر دیا۔ افسردگی کی وجہ سے دل بیٹھ سا گیا۔ گھر میں بچے اور دیگر سب لوگ بھی مایوس ہو گئے۔
یہ عید میری زندگی میں آنے والی سب سے پھیکی عید تھی، میں نے زندگی میں پہلی دفعہ عید کی نماز ادا نہیں کی۔
شام کو میری چار سالہ بیٹی کمرے کے قریب آئی تو میں نے دروازہ بند کر دیا اور کھڑکی سے ان سے باتیں کرنے لگا۔ میں نے پوچھا میرے پاس آنا چاہتی ہو؟ اس نے توتلی زبان سے کہا ‘نہیں بابا آپ میں وائرس ہے’ میں نے کہا کچھ نہیں ہے آجاؤ میری گود میں، وہ دوڑ کر جیسے ہی اندر آنے لگی تو میں نہ کہا رک جاؤ بیٹی!
وہ مایوس ہو کر واپس چلی گئی اور میرا کلیجہ بھی منہ تک آ گیا۔ سب بچوں میں یہ بہت لاڈلی ہے اور میرے ساتھ بہت نزدیک ہے۔ دوسرے دن دوبارہ کھڑکی کے قریب آئی اور میرے ساتھ باتیں کرنے لگی۔ اب میرا یہ روزانہ کا معمول بن گیا کہ وقت گزارنے کے لئے بچوں سے کھڑکی کے اندر سے ہی باتیں کرنے لگا۔
12 دن بعد میرے بدن میں تروتازگی پیدا ہوئی، میں خود کو ہشاش بشاش محسوس کرنے لگا۔ ان تمام دنوں میں، میں صحتمندانہ کھانوں کے ساتھ ساتھ پیناڈول اور زینتھرو گولیاں اور شہد، کلونجی ملا ایک ہومیو پیتھک سیرپ باقاعدہ استمال کرتا تھا۔ میں دوسرے یا تیسرے دن، لیموں اور نمک ملے پانی کا بھاپ بھی لیتا تھا جو کہ شاید ان تمام دنوں میں میرے نزلے سے متاثر نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔
16ویں دن میں نے ایک بار پھر ٹیسٹ دیا جس کا نتیجہ مجھے اگلے دن ملا اور یوں قرنطینہ کی قید سے مجھے آزادی مل گئی۔ گھر میں خوشی کا ایسا سماں تھا جیسے شادی ہو۔ میری ماں نے حلوہ کی دیگ پکا کر غریبوں میں بانٹ دی، بچے بھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔
قرنطین دور میں میرے لئے سب سے مشکل یہ تھی کہ میرے کمرے میں واش روم نہیں تھا اور میں صحن میں کامن واش روم استمال کرتا تھا۔ واش روم جاتے اور آتے ہوئے مجھے بہت زیادہ احتیاط کرنا پڑتا۔ میں گلوز پہنتا اور واپس آتے اسے ڈسپوز کرتا، لیکن پھر بھی میں کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا، بالٹی وغیرہ بھی علیٰحدہ کر دی تھی۔
اس دوران مجھے جس چیز سے جو زیادہ سپورٹ ملی وہ تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ کنکشن تھی۔ میں قبائلی اضلاع کے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں شاید خوش قسمت ہوں کہ میرا گھر پشاور کے پوش علاقے ریگی ماڈل ٹاؤن کے قریب ہے تو اسی وجہ سے ہمارے ہاں تھری جی اور فور جی کی سہولت دستیاب ہے ورنہ قبائلی اضلاع میں یہ سروس کئی سالوں سے مکمل طور پر بند کی گئی ہے۔ انٹرنیٹ کی دستیابی کی وجہ سے میں فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹ پر فعال تھا اور یوں وقت آسانی سے گزر جاتا تھا۔
بعض لوگ کورونا کے وجود کو نہیں مانتے لیکن میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ وائرس بہت ہی خطرناک ہے۔ میں شائد خوش قسمت تھا کہ جسمانی طور پر میں اس سے زیادہ متاثر نہیں ہوا لیکن اس سے مجھے جو ذہنی اذیت پہنچی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ میرا ایک ساتھی جو مجھ سے پہلے اس وائرس سے متاثر ہوا تھا وہ میرے بعد بھی کئی دن تک بیمار رہا اور ہسپتال میں موت کے منہ تک پہنچ گیا تھا۔
کورونا مریض کو سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تنہا ہو جاتا ہے۔ ایسے وقت میں انہیں مجبوراً تنہائی اختیار کرنا پڑتی ہے حالانکہ اس وقت انہیں دوستوں اور رشتہ داروں کی سخت ضرورت ہوتی ہے کہ انہیں حوصلہ دیں۔ دوسری بات یہ کہ نتیجہ مثبت آنے کے بعد گھر کے علاوہ باقی گاؤں میں بھی خوف پھیل جاتا ہے اور لوگ ان سے کراہت محسوس کرتے ہیں تو یہ بات بھی مریض کو بہت ناگوار گزرتی ہے اور مریض خود کو ناکردہ گناہ کا مجرم سمجھتا ہے۔
ہمیں مریضوں کے ساتھ ایسا برتاؤ ختم کرنا ہو گا، جب ہم ایسا کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ ان کی آدھی تکالیف اس کے ساتھ ہی ختم ہوں گی۔