سیاست

خیبر پختونخوا میں سیاسی جماعتیں گورنر سے نالاں، کیا بغاوت ہونے والی ہے؟

آفتاب مہمند

خیبر پختونخوا میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی گورنر خیبر پختونخوا کے رویے سے شدید نالاں نظر آرہے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا نے گورنر کو ہٹانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ایک منعقدہ تقریب کے دوران خیبر پختونخوا میں گورنر راج جیسے صورتحال کی آواز بلند ہوئی تھی۔ اسی حوالے سے رابطہ کرنے پر ترجمان مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا اختیار ولی نے ٹی این این کو بتایا کہ حاجی غلام علی نے صوبے میں بالکل گورنر راج نافذ کر دیا ہے۔

ان کے بقول گورنر ایک پارٹی کا نہیں بلکہ صوبے کے لیے وفاق کا نمائندہ ہے لیکن وہ دیگر سیاسی جماعتوں کو وقت نہیں دیتے اور خصوصی طور پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور کارکنان کے ساتھ ان کا رویہ نامناسب ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے قائد جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان اور وزیراعظم شہباز شریف تک یہ بات پہنچائی ہے جبکہ بطور صوبائی ترجمان وہ گورنر کو عہدے سے ہٹانے کے مطالبے پر قائم ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات گوہر انقلابی نے ٹی این این کو بتایا کہ جب سابق گورنر شاہ فرمان نے استعفیٰ دے کر اپنا عہدہ چھوڑا تو خیبر پختونخوا میں گورنر شپ کا حق پاکستان پیپلز پارٹی کا بنتا تھا لیکن پھر بھی پارٹی نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ شاہ فرمان کے بعد صوبے میں اس بار گورنر عوامی نیشنل پارٹی سے ہوگا تاہم افسوس کہ اس وقت عوامی نیشنل پارٹی اپنا گورنر نامزد نہ کرسکا۔

انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی خیبر پختونخوا کو گورنر خیبر پختونخوا کے بیورو کریسی یا نگران وزیراعلیٰ کے اختیارات میں بے جا مداخلت پر شدید تحفظات ہیں۔ وفاق میں تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعتیں ہیں لیکن پھر بھی دیگر سیاسی جماعتوں کو ایک بہتر ورکنگ ریلیشن شپ کے طور پر تمام اتحادیوں کو ساتھ لیکر چل رہے ہیں۔

گوہر انقلابی مزید کہتے ہیں کہ گورنر بے شک ایک صوبے کے آئینی سربراہ اور وفاق میں خیبر پختونخوا کے نمائندہ ہے لیکن وزیراعلیٰ کے چیف ایگزیکٹو ہوتے ہوئے صوبے کو چلانا وزیراعلیٰ کی ذمہ داری ہے اس لیے گورنر حاجی غلام علی کا صوبائی نگران وزیراعلیٰ، کابینہ یا بیورو کریسی کے کاموں میں بے جا مداخلت کسی صورت قابل قبول نہیں۔

ان کے بقول نگران وزیراعلیٰ اور کابینہ کو بھی اپنے اختیارات پہچاننے چاہئے اور ان کے اختیارات میں مداخلت پر ان کو بھر پور آواز اٹھانی ہوگی۔

ادھر رابطہ کرنے پر عوامی نیشل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری سردار حسین بابک نے ٹی این این کو بتایا کہ حاجی غلام علی نے گورنر ہاوس کو جمعیت علمائے اسلام کا قلعہ بنا دیا ہے اور پورے صوبے کا نمائندہ ہوتے ہوئے وہ صرف اپنی ہی پارٹی پر توجہ دے رہے ہیں، سرکاری کاموں میں مداخلت، پوسٹنگ ٹرانسفرز اور بیوروکریسی سے بے جا رابطے کرنا ان کا کام نہیں۔

بابک نے بتایا کہ بطور یونیورسٹیز چانسلر گورنر کو صوبے کے تعلیمی شعبوں پر توج دیتے، ان کا کیا کام کہ وہ سرکاری لوگوں کو فون کالز کرکے اپنی پارٹی کے کام کراوتے ہیں، یہ بلکل غلط ہے کہ دوسری جماعتوں کے کارکنان کو لالچ دیکر وہ اپنی پارٹی میں شمولیت کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سردار بابک کا کہنا ہے کہ گورنر خیبر پختونخوا کا بیٹا پشاور کے مئیر ہیں لیکن دوسرے جماعتوں سے تعلق رکھنے والے نیبرہوڈ چیئرمینوں پر اپنے پارٹی میں شمولیت کیلئے دباو ڈال رہے ہیں۔ گو کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کیساتھ مرکز میں ان کا ایک سیاسی اتحاد ضرور ہے لیکن خیبر پختونخوا میں گورنر اپنے اختیارات کا مکمل ناجائز استعمال کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے سنئیر صحافی شاہد حمید کہتے ہیں کہ ان کا نہیں خیال کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہاں کی نگران کابینہ میں تمام جماعتوں کی بھرپور نمائندگی ہے اور حکومت چل رہی ہے۔ ان کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ اختیار ولی ہو یا پی پی پی کی سابق ایم پی اے نگہت اورکزئی کے بیانات، یہ ان کے ذاتی بیانات ہو سکتے ہیں لیکن گورنر کے خلاف اگر کچھ ہو تو پھر ان کے پارٹیوں کے صوبائی صدور اور مرکزی قیادت خاموش کیوں؟ ہونا چاہیے تھا کہ اس معاملے پر تو مرکزی قیادت و صوبائی صدور کے سنجیدہ بیانات سامنے آتے لیکن ان سب کے باوجود وہ اس معاملے پر بالکل خاموش ہیں۔

دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام خیبر پختونخوا کے ترجمان عبدالجلیل جان نے رابطہ کرنے پر ٹی این این کو بتایا کہ اختیار ولی کا گورنر پر الزامات دراصل وزیراعظم اور صوبائی قیادت پر عدم اعتماد ہے۔

عبدالجلیل جان نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کے عوام جانتے ہیں کہ عوام میں رہنے والے گورنر اور عوام کو اقتدار ملنے کے بعد نظر انداز کرنے والے گورنر میں فرق کیا ہے۔ سابقہ تمام گورنروں نے عوام پر گورنر ہاؤس کے دروازے بند کئے تھے یہی وجہ ہے کہ آج وہ عوام میں بھی نہیں اور سکرین پر نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ حاجی غلام علی نے کونسلر سے لیکر گورنر کا سفر عوام ہی کی تائید اور حمایت سے حاصل کیا جبکہ  اتحادی جماعتیں گورنر کے عوامی انداز پر تنقید کرنے کی بجائے عوام میں جاکر ان کے مسائل کے حل کے لیے سوچیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کسی کے کندھوں پر چڑھ کر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور جے یو آئی کے لاکھوں کی تعداد میں کارکنوں کے جذبہ حُریت نے اس مقام پر پی ڈی ایم کی جماعتوں کو پہنچایا جس کا اعتراف مسلم لیگ کی قیادت برملا کر چکی ہے، جذباتی بیانات نظریاتی کارکنوں کو مطمئن کرنے کا ذریعہ وقتی طور پر بن سکتا ہے لیکن عوامی حمایت حاصل نہیں کی جاسکتی۔

انہوں نے اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کو مشورہ دیا کہ وہ پی ڈی ایم میں دراڑ پیدا کرکے تلخیاں پیدا کرنے کی بجائے اپنے تحفظات سے مرکزی قیادت کو آگاہ کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button