سیاست

وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مفتی عبدالشکور کے حالات زندگی پر ایک نظر

عصمت شاہ گروکی 

گزشتہ روز اسلام آباد میں ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہونے والے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما مفتی عبدالشکور کی نمازِ جنازہ ان کے آبائی علاقے لکی مروت میں ادا کردی گئی۔

مفتی عبدالشکور کی نماز جنازہ میں اہل علاقہ، کارکنوں اور سیاسی و مذہبی شخصیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

مفتی عبدالشکور کون تھے؟

مفتی عبدالشکور یکم جنوری 1968 کو خیبر پختونخوا کے لکی مروت گاؤں تاجی خیل میں سردار خان کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی مدرسہ درہ پیزو سے پڑھا پانچویں درجہ کیلئے نوشھرہ کے اکوڑہ خٹک چلے گئے جبکہ چوتھے درجے میں تھے کہ بنو اور لکی مروت کے جمیعت طلباء اسلام کے تحصیل صدر منتخب ہوئے.

انہوں نے 1991 میں حیدر آباد میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی سے فلاسفی جبکہ 1993 میں دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔ سال 2002 میں وہ پشاور کے پلوسی علاقہ کی ایک جامع مسجد کے خطیب مقرر ہوئے اور آخری وقت تک پشاور میں اپنے قیام کے دوران امامت کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔

2018 کے عام انتخابات میں حلقہ 51 سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ گزشتہ برس 19 اپریل کو بطور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگ حلف اٹھایا اور اپنے انتقال تک تقریباً ایک برس اس منصب پر فائز رہے۔

مفتی عبدالشکور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور اور منصوبہ بندی ڈویژن کے علاوہ  قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے سابقہ ​​فاٹا کی ترقی کے بھی رکن رہے۔

وہ جے یو آئی کے امیر برائے قبائلی علاقہ جات اور کنوینر برائے گرینڈ جرگہ تمام قبائل بھی رہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کے خصوصی مشیر اور جے یو آئی کی مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے۔

علاوہ ازیں موصوف دارالعلوم سراج الاسلام پشاور میں درس فلسفہ، (منطق)، فقہ، حدیث، تفسیر، فتویٰ تحریر کرنے سے متعلق درس تدریس سے بطورمعلم  گزشتہ 20برس سے وابستہ تھے۔

مفتی عبدالشکور کی دو شادیاں تھیں پہلی بیوی سے دو بیٹیاں ہیں جن کی شادیاں علاقہ میں ہوئی ہیں اور دوسری بیوی سے ایک چھوٹا بیٹا محمد ہے. مفتی کی خواہش تھی کہ اس کا یہ بیٹا دنیاوی تعلیم کے بجائے عالم دینی تعلیم حاصل کرکے والد کی طرح عالم دین بن جائے۔

مفتی عبدالشکور پارلیمنٹ میں فاٹا کے مسائل پر توجہ دلانے اور ان کے حل کے حوالے سے موثر آواز سمجھے جاتے تھے جبکہ مرحوم نے قرآن بورڈ کے قانون، حج پالیسی کی تشکیل اور عازمین حج کے لئے ڈالر کے حصول کے حوالے سے بھی انہوں نے نمایاں خدمات سر انجام دیں۔

وہ پاکستان کے منتخب نمائندے اور قومی اسمبلی کے رکن ہونے کے ناطے قوم کی خدمت، عام آدمی کی زندگی میں ہم آہنگی، امن اور خوشحالی لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنا چاہتے تھے۔ سماجی تحفظ اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہے۔

وہ تعلیم اور زندگی کی ضروریات عام آدمی ،بلخصوص اپنے حلقے لکی مروت کے عوام کی دہلیز پر پہنچانے کے خواہش مند تھے جبکہ طور رکن پارلیمنٹ تمام مسلمانوں اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے بھی خواہاں رہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button