کھیل

34 ویں نیشنل گیمز، ملک کے سب سے بڑے سپورٹس ایونٹ سے قبائلی کھلاڑی لا علم

خالدہ نیاز

خیبرپختونخوا میں ضم قبائلی اضلاع کے کھلاڑیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ 22 مئی سے شروع ہونے والے 34 ویں نیشنل گیمز میں  قبائلی کھلاڑیوں کا الگ دستہ شامل کیا جائے تاکہ ان کا مستقبل بچایا جاسکے۔

خیبرپختونخوا بیڈمنٹن ایسوسی ایشن کے سینئر وائس پریذیڈنٹ اور ضلع خیبر کے جنرل سیکرٹری اختر رسول شنواری کا کہنا ہے کہ جب قبائلی اضلاع کے انضمام سے پہلے چاہے نیشنل گیمز ہوں، قائداعظم گیمز ہوں یا کوئی اور سپورٹس ایونٹ, فاٹا کا الگ دستہ اس میں شامل ہوتا، ان کھلاڑیوں کو الگ ٹی اے، ڈی اے اور باقی سہولیات ملا کرتی تھیں  لیکن خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے بعد فاٹا کے کھلاڑیوں کا مستقبل خطرے میں پڑگیا ہے کیونکہ قبائلی اضلاع میں سہولیات کی کمی ہے اور یوں قبائلی اضلاع کے کھلاڑی نہ تو کسی ایونٹ کے لیے کوالیفائی کرپاتے ہیں اور نہ ہی آگے آ پاتے ہیں۔

34 ویں نیشنل گیمز کب اور کہاں ہونگے؟

امسال نیشنل گیمز کا میزبان بلوچستان ہے۔ ان گیمز میں ملک بھر سے کھلاڑی 32 مختلف کھیلوں میں حصہ لیں گے۔ 4 گیمز کوئٹہ کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں ہونگے جن میں روئنگ کے مقابلے 14 سے 18 مئی تک اسلام آباد میں ہونگے۔ سیلنگ کے مقابلے پہلی بار کراچی کے علاوہ گوادر میں بھی منعقد کئے جائیں گے۔ شوٹنگ کے مقابلے 13 سے 19 مئی تک جہلم اور تیراکی کے مقابلے 26 سے 28 مئی تک لاہور میں ہونگے۔ باقی کے 28 گیمز کے مقابلے کوئٹہ میں منعقد کئے جائیں گے۔ پہلی مرتبہ کنوئے اور کایک (کشتی رانی) سمیت فٹسال، تھرو بال اور ویمن کرکٹ کے نمائشی مقابلے بھی نیشنل گیمز کا حصہ ہوں گے تاہم ان گیمز کے فاتحین کے میڈلز نیشنل گیمز میں شمار نہیں کئے جائیں گے۔ دیگر کھیلوں میں بیس بال، فٹ بال، ہینڈ بال، ہاکی، کبڈی، رگبی (سیون)، سافٹ بال، رسہ کشی، والی بال، بیڈمنٹن، باکسنگ، فینسنگ، آرچری، ایتھلیٹکس، باسکٹ بال (5×5)، باڈی بلڈنگ، سائیکلنگ، گالف، جوڈو، کراٹے، سکواش، ٹیبل ٹینس، تائیکوانڈو، ٹینس، ویٹ لفٹنگ، ریسلنگ اور ووشو شامل ہیں۔ یہ تمام مقابلے کوئٹہ کے مخلتف اسٹیڈیم میں منعقد ہونگے۔

نیشنل گیمز میں قبائلی اضلاع کے کتنے کھلاڑی شرکت کرینگے؟

اختر رسول شنواری نے ٹی این این سے بات چیت کے دوران الزام لگایا کہ فاٹا سپورٹس ڈائریکٹوریٹ اب بھی موجود ہے جہاں انکے پاس کروڑوں روپوں کے فنڈ موجود ہوتے ہیں، انکے پاس کئی گاڑیاں موجود ہوتی ہے لیکن جب کھلاڑی ان کے پاس جاتے ہیں تو انکو دینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا جب یہ لوگ فاٹا سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے پاس جاتے ہیں تو انکو کہا جاتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے ڈی جی سپورٹس کے پاس چلے جائیں لیکن وہاں جاکر انکو یہی بتایا جاتا ہے کہ آپ کا تو ڈائریکٹوریٹ موجود ہے وہاں جائیں انکو سمجھ نہیں آتی کہ جائے تو کس کے پاس۔

ان کا کہنا ہے کہ نیشنل گیمز کے لیے خیبرپختونخوا کا 400 رکنی دستہ جارہا ہے لیکن فاٹا سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کو اس کا پتہ تک نہیں ہے کہ اتنا بڑا ایونٹ ہونے جارہا ہے۔ اختر رسول شنواری کا کہنا ہے کہ یا تو فاٹا ڈائریکٹوریٹ میں ٹیکنیکل لوگ بھرتی کیئے جائے اور یا انکو قانونی طور پر خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے اور انہیں کی طرح سہولیات دی جائے تاکہ انکا  مستقبل تباہ ہونے سے بچ جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان 400 کھلاڑیوں میں بمشکل صرف 10، 15 کھلاڑی قبائلی اضلاع کے ہونگے باقی خیبرپختونخوا کے ہیں  جو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

قبائلی اضلاع کے کھلاڑی نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

اختر رسول نے مزید بتایا کہ فاٹا کے کھلاڑی نہ ادھر کے رہے نہ ادھر رہے نہ خیبرپختونخوا کے کھلاڑیوں کی طرح سہولیات انکو دی جارہی ہے اور نہ ہی ضم اضلاع میں انکو کوئی پوچھتا ہے۔

ضلع خیبرسے تعلق رکھنے والے بیڈمنٹن کے کھلاڑی مدثر شینواری نے ٹی این این کو بتایا کہ فاٹا کے کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن انکو نہ تو سہولیات دی جارہی ہے اور نہ ہی انکو کسی بڑے ایونٹ میں کھیلنے کا موقع دیا جارہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انکو خیبرپختونخوا کے کھلاڑیوں کی طرح سہولیات دی جائےتاکہ یہ کھلاڑی بھی آگے جاسکیں اور ملک و قوم کا نام روشن کرسکیں۔

فٹبال پلیئرکلیم اللہ شینواری کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع نے انٹرنیشنل پیلئرز پیدا کئے ہیں جن میں عتیق شینواری، یاسر آفریدی، شاہین شاہ آفریدی اور عثمان شینواری قابل ذکر ہیں لیکن اب قبائلی اضلاع کے کھلاڑی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں جس کی وجہ سے ان کا مستقبل خطرے میں پڑگیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انکو باقی کھلاڑیوں کی طرح سہولیات دی جائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button