سیاست

”دہشتگردی کی تازہ لہر ٹی ٹی پی کے ساتھ نرم گوشہ رکھنے کا نتیجہ ہے”

رفاقت اللہ رزڑوال

قومی سلامتی کمیٹی نے ملک میں جاری دہشتگردی کی تازہ لہر کو کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ نرم گوشہ رکھنا عوامی توقعات اور خواہشات کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگردوں کو بغیر کسی رکاؤٹ آنے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ خطرناک دہشتگردوں کو اعتماد سازی کی بنیاد پر جیلوں سے رہا کر دیا گیا ہے۔

سیکیورٹی ماہرین سمجھتے ہیں کہ این ایس سی کے اجلاس سے واضح ہو رہا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف شروع ہونے والے آپریشنز میں سیکیورٹی فورسز مصرف رہیں گے یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں الیکشن کے دوران سیکیورٹی فورسز کا ڈیوٹی دینے سے قاصر رہنے کا ایک ٹھوس جواز پیدا ہوگا۔

وزیر اعظم ہاوس سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا 41 واں اجلاس جمعہ کو وزیر اعظم ہاؤس میں ہوا جس میں سیکیورٹی کی صورتحال پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔

اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی، ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی ایم او سمیت دیگر عسکری اور سویلین حکام بھی شریک ہوئے جب کہ اجلاس میں کمیٹی ممبران اور چاروں وزرائے اعلیٰ بھی خصوصی طور پر شریک تھے۔

اجلاس میں کہا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ نرم گوشے کی وجہ سے ملک کا امن و استحکام درہم برہم ہوا جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں قربانیاں دی گئی ہیں۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ٹی ٹی پی کے حوالے سے نرم رویہ اور دہشت گردوں کی واپسی کے حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں تاہم وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور دیگر وزراء نے کھل کر سابق وزیر اعظم عمران خان پر الزام عائد کیا کہ ان کی وجہ سے پالیسیوں سے ملک میں دہشتگردی ایک بار پھر معمول بن گئی۔

اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ دہشتگردوں کو بغیر کسی رکاؤٹ آنے کی اجازت دی گئی اور خطرناک دہشتگردوں کو اعتماد سازی کی بنیاد پر جیلوں سے رہا کر دیا گیا جبکہ واپس آنے والے دہشتگردوں کی وجہ سے امن و استحکام منتشر ہوا۔

اجلاس میں قوم اور حکومت سے مل کر ہمہ جہت جامع آپریشن شروع کرنے کی منظوری دی گئی جس میں سیاسی، سفارتی اور سیکیورٹی سطح پر کوششیں شامل ہوں گے جبکہ اجلاس میں ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو دو ہفتوں میں جامع آپریشن پر عمل درآمد اور اس کی حدود سے متعلق سفارشات دیں گی۔

قومی سلامتی کمیٹی نے معاشرے میں نفرت انگیزی، تقسیم کی کوششوں، ریاستی اداروں اور قیادت کے خلاف بیرونی سپانسرڈ زہریلے پروپیگنڈے کی مذمت بھی کی ہے۔

اس اجلاس سے تحریک انصاف کی اس بیانئے کی نفی ہو رہی ہے کہ اجلاس کا کوئی سیاسی ایجنڈا تھا یا فوج اور عدلیہ کے سامنے پوری قوم کو لا کر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اجلاس سے ایک دن قبل پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ اب پوری طرح سے واضح ہوچکا ہے کہ پی ڈی ایم ہر حال میں انتخابات سے فرار چاہتی ہے۔

"یہ سپریم کورٹ کے حوالے سے ایک غیر آئینی قانون لیکر آئے اور انہوں نے عدلیہ کے خلاف قومی اسمبلی سے قرار داد منظور کی۔ اب انتخابات کو التوا میں ڈالنے کی کوشش کرنے اور سیکیورٹی کو ایک جواز کے طور پر استعمال کرنےکے لئے کل قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کو طلب کیا گیا ہے۔ ان کا یہ اقدام مسلح افواج کو عدلیہ ہی نہیں بلکہ براہ راست قوم کے سامنے لا کھڑا کرے گا۔”

اجلاس میں دہشتگردی اور نفرت انگیزی کے خلاف کوششیں شروع کرنے کا عندیہ تو دے دیا گیا مگر ماضی قریب میں دہشتگردوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں کی احتساب نہ کرنے پر تجزیہ کاروں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ  جب تک آپریشنز کے ساتھ احتساب کا عمل شروع نہیں ہوتا تب تک مسائل جوں کے توں رہیں گے۔

پشاور میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار رفعت اورکزئی کا کہنا ہے کہ سلامتی کمیٹی کی یہ بات درست ہے کہ ماضی قریب میں دہشتگردوں کیلئے نرم گوشہ رویہ رکھا گیا تھا جس سے کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا مگر اجلاس میں ان پالیسی سازوں کے سزا جزا کے بارے میں بات نہیں کی گئی جن کی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے دوران ریاست نے 100 سے زائد غیر ریاستی عناصر کو جیلوں سے رہا کر دیا تھا جس کی وجہ سے مسلح افراد کے حوصلے بڑھے اور یہاں پر وہی طریقہ کار اپنایا گیا جو افغانستان کے حوالے سے دوحہ معاہدے کے دوران ہوا تھا جس کے نتیجے میں 5 ہزار طالبان رہا ہوئے تھے اور پھر کابل کا سقوط ہوا۔

آپریشن کے دوران انتخاب کے انعقاد کے امکان پر رفعت اورکزئی نے بتایا کہ اگر آپریشن شروع ہوتا ہے تو اس میں سیکیورٹی فورسز انگیج رہی ہے جس سے الیکشن کیلئے سیکورٹی کی فراہمی ممکن نہ ہوسکے گی۔

"جنوبی اضلاع یعنی ٹانک، جنوبی و شمالی وزیرستان، لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل میں عام طور پر لوگ تو زندگی گزار رہے ہیں مگر سیاسی پارٹیاں تو جلسے جلوس کریں گے اور ان میں اکثر سیاسی جماعتوں کو ٹی ٹی پی تھریٹ بھی کر رہی ہے تو پھر ایسے حالات میں الیکشن کیسے لڑیں گے؟”

ٹی ٹی پی سے مذاکرات

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران نے اکتوبر 2021 میں ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ” ٹی ٹی پی کے اندر مختلف گروپس ہیں اور ان میں سے چند گروہ چاہتے ہیں کہ وہ صلح کے لئے حکومت سے بات چیت کرے، ہم ان کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں اور یہ صلح شروع ہونے کا پہلا مرحلہ ہے۔”

عمران خان سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا پاکستان طالبان کو غیرمسلح ہونے کا کہے گا؟ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ "جی ہاں وہ تو پھر عام لوگ بن جائیں گے اور ہم انہیں بخش دیں گے۔”

اس کے بعد پاکستان سے مذاکرات کے لئے ایک وفد بھی کابل بھیجا گیا تھا مگر اس کی کوئی خاطرخوا نتائج سامنے نہیں آئے جس کے بعد گزشتہ سال تحریک طالبان پاکستان نے نومبر میں فائر بندی ختم کرکے حملے شروع کر دئیے۔

یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کی لہر گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے جس کے لئے مختلف ادوار میں مذاکرات کے ساتھ مختلف ناموں پر آپریشنز بھی کئے ہیں تاہم ابھی تک دہتشگردی ختم نہ ہوسکی۔

اس حوالے سے دفاعی امور کے ماہر بریگیڈئر (ر) سید نذیر مومند کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں دہشتگردی کا مکمل طور پر خاتمہ صرف ایک خواہش ہوسکتی ہے جس کی وجوہات ایک ایسی جنگ ہے جس کا منبع معلوم نہیں۔

ان کے بقول ” تشویش کی بات یہ ہے کہ ماضی میں واقعی ریاست کا دہشتگردوں کے ساتھ رویہ نرم تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ مذاکرات کے دوران ریاست کمزور پوزیشن پر تھی حالانکہ ریاست کا رویہ مضبوظ اور بالا ہونا چاہئے، دوسرا یہ کہ ایک غیرمنظم نیٹ ورک (ٹی ٹی پی) پر اعتماد کرکے جیلوں کے رہائی کے ساتھ چند ہزار کو واپس لائے گئے جس سے کافی نقصان ہوا۔”

انہوں نے ممکنہ آپریشن کے طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں اس میں صرف جنگ نہیں ہوگی بلکہ سفارتی اور سیاسی چینلز کے استعمال کے ساتھ ردعمل کی صورت میں ٹارگٹڈ آپریشن ہوگی، سفارتی سطح پر ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھایا جائے جبکہ سیاسی طور پر دہشتگردوں کو پناہ دینے والے ممالک پر پاکستان کی جانب سے پابندیوں کا سامنا بھی ہوسکے گا۔

سید نذیر کا خیال ہے کہ اس دوران ممکنہ اپریشن میں ماضی کی طرح لوگوں کو بے گھر نہیں کیا جائے گا بلکہ انٹلی جنس بیسڈ آپریشن کے نتیجے میں ٹارگٹ ہدف نشانہ بنائیں جائیں گے۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ جب گزشتہ دور حکومت میں طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع ہوئے تو اس میں پارلیمنٹ کو بریفنگ دینے کے باوجود بھی عوامی حمایت حاصل نہیں تھی کیونکہ سوات، قبائلی اضلاع سیمت پورے صوبے میں بدامنی کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو اب کی بار اس بنیاد پر انکا خیال ہے کہ آپریشن میں عوامی اور سیاسی حمایت بھی حاصل ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے دو نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں ایک یہ کہ سپریم کورٹ نے جن انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے وہ آس اپریشن سے متاثر ہوں گے جبکہ دوسرا یہ کہ سیکیورٹی فورسز دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لئے مکمل طور پر تیار ہے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button