قومی

72 کھرب 94 ارب 90 کروڑ روپے حجم پر مشتمل 3437 ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2020-21 کیلئے 72کھرب 94 ارب 90 کروڑ روپے حجم پر مشتمل 3437 ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کر دیا۔

سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت آج قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس ہوا جس میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی شرکت کی، وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے آئندہ مالی سال 2020-2021 کے لیے 72 کھرب 94 ارب 90 کروڑ روپے کا بجٹ پیش کیا جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 11 فیصد کم ہے، بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں وفاقی حکومت کیلئے 650 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ 2873.7 ارب روپے ہے۔

تحریک انصاف حکومت کے دوسرے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4963 ارب اور نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے رکھا گیا ہے جبکہ دفاعی بجٹ بڑھا کر 1289 ارب روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران کرنٹ اکانٹ خسارے میں 73 فیصد کمی ہوئی، پی ٹی آئی حکومت نے تجارتی خسارہ 31 فیصد کمی کی، 9 ماہ میں تجارتی خسارے میں 21  فیصد کمی کی گئی، تجارتی خسارہ 21 ارب ڈالر سے کم ہو کر 15 ارب ڈالر رہ گیا، بجٹ میں آٹو رکشہ، موٹر سائیکل رکشہ، 2 سو سی سی تک کی موٹر سائیکلوں پر ایڈوانس ٹیکس ختم، ڈبل کیبن گاڑیوں، ای سگریٹ اور درآمدی مشینری پر ٹیکس کی شرح بڑھانے اور مقامی سطح پر تیار کردہ موبائل فون پر ٹیکس کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، سگار، سگریٹ کی پرچون قیمت پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کرنے جبکہ کیفینیٹڈ انرجی ڈرنکس پر 25 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے، 2 لاکھ روپے سے زائد سالانہ فیس لینے والے تعلیمی اداروں کا ٹیکس دگنا کر دیا ہے، بغیر شناختی کارڈ ٹرانزیکشن کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کر دی گئی ہے۔

اسی طرح آئندہ مالی سال میں مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو کو 0.5 سے بڑھا کر 2.1 فیصد پر لانے، جاری کھاتوں کے خسارے کو 4.4 فیصد پر برقرار رکھنے، مہنگائی کو 9.1 فیصد سے کم کر کے 6.5 فیصد پر لانے، زرعی شعبے کی ترقی 2.9 فیصد کرنے اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 25 فیصد تک اضافہ کرنے کے اہداف مقرر کئے گئے ہیں، فنکاروں کی مالی امداد کیلئے آرٹسٹ پروٹیکشن فنڈ 25 کروڑ سے بڑھا کر 1چارب کردیا گیا،بجٹ میں آسان کاروبار کیلئے 9 فیصد ودھ ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے، ٹیکس دینے والے شادی ہالز اور بچوں کی سکول یا تعلیمی فیسوں پر والدین پر عائد ٹیکس ختم کرنے، نان ریزیڈنٹ شہریوں کیلئے آف شور سپلائیز پر ودہولڈنگ ٹیکس میں کمی کی تجویز دی گئی ہے۔

بجٹ میں سستی ٹرانسپورٹ کیلئے پاکستان ریلوے کیلئے 40 ارب، تعلیم کیلئے 30 ارب، صحت کیلئے 20 ارب، توانائی اور بجلی کیلئے 80 ارب، خوراک و زراعت کیلئے 12 ارب، موسمیاتی تبدیلی کیلئے 6 ارب، سائنس و ٹیکنالوجی کیلئے 20 ارب اور قومی شاہراہوں کیلئے 118ارب رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

دوسری جانب کرونا وائرس اور دیگر قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے 70 ارب، ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے 10 ارب، کامیاب نوجوان پروگرام کیلئے 2 ارب، فنکاروں کی مالی امداد کیلئے ایک ارب روپے کر دی گئی ہے۔

ایف بی آر کے ریونیو میں 15 فیصد اضافہ ہوا،حکومت نے 6 ارب ڈالر کے بیرونی قرض کی ادائیگی کی، پچھلے 2 سال میں 5 ہزار ارب سود کی مد میں ادا کیے، ماضی کے قرضوں پر ہم نے 5 ہزار ارب روپے سود ادا کیا، 10 لاکھ پاکستانیوں کے لیے بیرون ملک ملازمت کے مواقع پیدا ہوئے، 9 ماہ میں ترسیلات زر 17 ارب ڈالر تک پہنچ گئے، ہماری حکومت میں بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے 10 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا کیے۔

انہوں نے کہا کہ اگلے مالی سال کیلئے بجٹ پیش کرنے سے قبل میں اس معزز ایوان کو آگاہ کرنا چاہوں گا کہ جب 2018ء میں ہماری حکومت آئی تو ہمیں معاشی بحران ورثے میں ملا ۔ ایوان کے معزز ارکان کو یاد ہو گا کہ اس وقت ملکی قرض پانچ سالوں میں دگنا ہو کر 31 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا تھا جس پر سود کی رقم کی ادائیگی ناقابل برداشت ہو چکی تھی، جاری کھاتوں کا خسارہ 20 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا۔

انہوں نے کہا کہ تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر کی حد تک پہنچ چکا تھا جبکہ گزشتہ پانچ سالبوں میں ایکسپورٹ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ پاکستانی روپے کی قدر کو غیر حقیقی اور مصنوعی طریقے سے بلند سطح پر رکھا جس سے ایکسپورٹ میں کمی اور امپورٹ میں اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے گھٹ کر 10 ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے تھے جس کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب آ گیا تھا۔ بجٹ خسارہ 2300 ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا۔ ناقص پالیسیوں اور بدانتظامی کے باعث بجلی کا گردشی قرضہ 485 ارب کی ادائیگی کے باوجود 1200 ارب روپے کی انتہائی حد تک پہنچ چکا تھا جس کا بوجھ عوام پر ڈالا گیا۔ سرکاری اداروں کی تعمیر نو نہ ہونے سے ان کو 1300 ارب روپے سے زائد نقصانات کا سامنا تھا۔ اسٹیٹ بنک سے بے تحاشہ قرضہ جات لئے گئے جس سے بینکاری نظام کو شدید نقصان پہنچا۔ Money Laundering اور Terror Financing کی روک تھام کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے تھے جس کی وجہ سے پاکستان FATF کی Grey List میں ڈال دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے مالی سال 2019-20 کا آغاز پارلیمنٹ کی طر ف سے منظور کردہ اہداف کو حاصل کرنے کے لئے کیا۔ جس کے لئے ہم نے موزو ں فیصلے اور اقدامات اٹھائے جس سے معیشت کو استحکام ملا۔ نتیجتاً مالی سال 2019-20ء کے پہلے 9 ماہ کے دوران 2018-19ء کے اسی عرصہ کے مقابلے میں اہم معاشی اشاریوں میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی۔ تفصیل یہ ہے اس مالی سال کے پہلے 9ماہ میں جاری کھاتوں کے خسارے کو 73 فیصد کم کیا گیا جو 10 ارب ڈالر سے گھٹ کر 3 ارب ڈالر رہ گیا۔ تجارتی خسارہ میں 31 فیصد کمی کی گئی جو 21 ارب ڈالر سے کم ہو کر 15 ارب ڈالر رہ گیا۔

حماد اظہر نے کہا کہ اس مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں بجٹ کا خسارہ 5 فیصد سے کم ہو کر 3.8 فیصد رہ گیا۔ گزشتہ 10 سالوں میں پہلی بار Primary Surplus مثبت ہو کر جی ڈی پی کے 0.4 فیصد تک رہا، طبی آلات کی خریداری، حفاظتی لباس اور طبی شعبے کے لئے 75 ارب روپے مختص کئے ہیں، 100 ارب روپے بجلی اور گیس کے موخر شدہ بلوں کے لئے مختص ہیں، وزیر اعظم نے چھوٹے کاروبار کیلئے خصوصی پیکج دیا جس کے تحت تقریباً 30 لاکھ کاروباروں کے 3 ماہ کے بجلی کے بل کی ادائیگی کیلئے 50 ارب روپے فراہم کئے گئے۔ کسانوں کو سستی کھاد، قرضوں کی معافی اور دیگر ریلیف کے لئے 50 ارب فراہم کئے گئے۔

وفاقی وزیر ریونیو نے کہا کہ کورونا وائرس کے تناظر میں صحت کا شعبہ حکومت کی خصوصی ترجیح ہے اور بہتر طبی خدمات، وبائی بیماریوں کی روک تھام، طبی آلات کی تیاری اور صحت کے اداروں کی استعداد کار میں اضافے کے لئے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یکساں نصاب کی تیاری ، معیاری نظام امتحانات وضع کرنے ، سمارٹ سکولوں کے قیام اور مدرسوں کی قومی دھارے میں شمولیت کے ذریعے تعلیمی نظام میں بہتری لائی جائے گی جس کے منصوبوں کے لئے فنڈز مختص کردیئے ہیں ان اصلاحات کے لئے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

وفاقی وزیر ریونیو نے کہا کہ ٹیکس بیس کو بڑھانے کیلئے فنانس ایکٹ 2019ء میں قومی شناختی کارڈ کی شرط متعارف کروائی گئی تاکہ ان افراد کو جو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں انہیں ٹیکس کیدائرہ کار میں لایا جائے تاہم عوام کی سہولت کے لئے عام خریدار کے لئے بغیر شناختی کارڈ خریداری کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کرنے کی تجویز ہے۔معاشرے کے غریب طبقے کو ٹیکس کے اثر سے بچانے کے لئے موٹر وہیکلز کی تعریف میں ایک تشریح کی تجویز دی جا رہی ہے تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ سیکشن 231 اور 234 کے تحت آٹو رکشہ، موٹر سائیکل رکشہ اور 200 سی سی تک موٹر سائیکل پر ایڈوانس ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا یہ تشریح معاشرے کے غریب افراد کو ریلیف فراہم کرنے کے مقصد کی جارہی ہے۔

حماد اظہر کے مطابق فی الوقت سیکشن 236 اے کے تحت ایڈوانس ٹیکس جائیداد کی نیلامی کے وقت وصول کیا جاتا ہے اس قسم کی رقم اگر اقساط میں وصول کی جائے تو اس پر ٹیکس کی ادائیگی بھی قسطوں میں دینے کی سہرلت دی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ود ہولڈنگ کے دائرہ کار کو بڑھانے اور اس حوالے سے تمام افراد کے کاروباری لین دین پر نظر رکھنے کے لئے تجویز ہے کہ دفعہ 236 ء کے تحت معدنیات پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی کو ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ میں شامل افراد تک بڑھادیا جائے ۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button