قومی

سپین میں کرونا سے متاثرہ پاکستانی سے مکالمہ

افتخار خان

سپین میں رہائش پزیر کرونا وائرس کے متاثرہ پاکستانی مریض کا اپنے دوست کے ساتھ وٹس ایپ مکالمہ

مریض: یار میرے لئے دعا کرو، کئی دنوں سے ہسپتال میں ہوں اور حالت انتہائی خراب ہے۔

پاکستانی دوست: اللہ نے چاہا تو بہت جلد ٹھیک ہوجاؤ گے۔

مریض: مجھے اپنی ماں، بہن اور باپ کی فکر کھائی جا رہی ہے، پتہ نہیں میں مزید زندہ رہ پاؤںگا یا نہیں، ان لوگوں کا میرے بغیر کیا ہوگا؟

دوست: یہ فضول اور بکواس باتیں مت کیا کروِ، انشاءاللہ تم بہت جلدی ٹھیک ہونگے اور بہت جلد ہماری ملاقات بھی ہوگی۔

بس تھوڑا احتیاط کیا کروں!

مریض:کاش میں نے احتیاط کیا ہوتا۔۔۔۔۔۔ آہ زندگی!!!

مریض کا تعلق چکوال سے ہے جن کی عمر 28 سال ہیں اور گزشتہ 9 برس سے مزدوری کے سلسلے میں سپین میں ایک کمرے میں دیگر 5 ساتھیوں کے ساتھ رہائش پزیر ہیں۔

اپنی صحت اور زندگی کے بارے میں ان کی تشویش بجا ہے کیونکہ ان کے کمرے کے دو ساتھی کچھ دن پہلے کرونا وائرس کی وجہ سے موت کے آغوش میں چلے گئے ہیں اور باقی دو ساتھی ان کے ساتھ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

مریض نے اپنا نام چھپانے کی بھی درخواست کی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ ان کے والدین اور دیگر خاندان والوں کو ان کی حالت کا علم ہو کیونکہ ان کے خیال میں ایسا ہونے سے ان کے گھر پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔

چین کے شہر ووہان سے جنم لینے والا کرونا وائرس اس وقت دنیا کے 192 ممالک میں پھیل چکا ہے اور اس وائرس کے متاثرین سوا 4 لاکھ تک پہنچ چکے ہیں جن میں 17 ہزار سے زائد ہلاک بھی ہوچکے ہیں۔

اس وائرس سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں اٹلی اور سین سرفہرست ہیں جن میں مرنے والوں کی تعداد بالترتیب 6820 اور 2700 ہوچکی ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں میں مزید اضافہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔

ان دونوں ممالک میں کرونا وائرس کی تباہی کی بڑی وجہ عوام کی جانب سے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنا بتائی جاتی ہے۔

اس بات کی تصدیق سپین میں زیر علاج پاکستانی بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ حکومت کی جانب سے عوام کو باربار ہدایات جاری کی جا رہی تھی کہ گھروں سے باہر نے نکلے اور سماجی میل جول سے کچھ دنوں کے لئے دوری اختیار کریں لیکن ان سمیت زیادہ تر لوگوں نے ان باتوں پر عمل نہیں کیا اور آج یہ حالت ہے کہ ہسپتال میں بس موت کے انتظار میں پڑے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اپنے گھر کا واحد کفیل ہیں اس لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے ایک دن بھی اپنی مزدوری کھونا نہیں چاہتا تھا اور روزانہ ٹیکسی چلاتا رہتا

‘اگر چند دن ٹیکسی نہ چلاتا تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ گھر والے کسی سے قرض لیتے اور حالات سنبھلنے کے بعد مجھے کچھ عرصہ ڈبل محنت کرنی پڑتی لیکن اب سوچتا ہوں خدا نخواستہ مجھے کچھ ہوگیا تو میرے خاندان کا کیا ہوگا؟’ انہوں نے تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے تمام مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ ان کی صحت یابی کے لئے اور دنیا میں پھیلی اس وبا کے خاتمے کے لئے دعا کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button