لائف سٹائل

پاکستان میں گندم کی پیداوار میں اضافہ، کیا عوام کو آٹا سستا ملے گا؟

رفاقت اللہ رزڑوال

حکومت پاکستان کی جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باوجود ملک میں رواں سال کے دوران گندم کی پیدوار میں ساڑھے 5 فیصد اضافہ ہوا ہے تاہم اس اضافے کے باوجود بھی عوام مہنگے داموں میں آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔

محکمہ زراعت کی جانب سے جاری اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران گندم کی پیداوار 2 کروڑ، 62 لاکھ 18 ہزار ٹن ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ رواں مالی سال کے دوران 5 اعشاریہ 4 فیصد کے ریکارڈ اضافے کے ساتھ پیداوار 2 کروڑ 76 لاکھ ٹن تک پہنچ گئی ہے۔

گندم کی پیداوار میں اضافے کے دعوؤں کے بعد آٹے کی قیمتیں کم ہونے کے امکانات کو عام لوگ اور ماہرین مسترد کرتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق ملک کی ضرورت پیداوار کی نسبت زیادہ ہے۔

خیبر پختونخوا میں کاشتکاروں کی تنظیم کے ترجمان لیاقت علی یوسفزئی نے ٹی این این کو بتایا کہ حکومت کا دعویٰ درست ہے کہ گندم کی پیداوار میں اضافہ ہوا لیکن اتنا اضافہ نہیں ہوا جس کی وجہ سے ہم خود کفیل رہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال کے نسبت فی ایکڑ پیداوار میں تقریباً 10 من زیادہ گندم حاصل ہوئے ہیں لیکن آبادی کی تناسب سے یہی اضافہ انتہائی کم ہے۔ ان کے مطابق آنے والے وقت میں گندم کی بحران ایک بار پھر سر اُٹھائے گا۔

لیاقت یوسفزئی نے خیبر پختونخوا کی پیدوار اور ضرورت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں گندم کی سالانہ پیداوار 13 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ ضرورت 45 سے 48 لاکھ میٹرک ہوتی ہے، اس دوران صوبے میں گزشتہ سال اگست کے مہینے میں سیلاب نے کھڑی فصلیں بہا دئے جس کی وجہ صوبے میں خوراک کی پیدوار مزید متاثر ہوئی۔

اکنامک سرویز آف پاکستان کے دستاویز کے جائزے کے مطابق امسال گندم کی پیداوار میں مسلسل اضافہ سامنے آ رہا ہے۔

2017 کے مالی سال کے دوران گندم کی پیداوار 2 کروڑ 60 لاکھ ٹن، 2018 میں ڈھائی کروڑ ٹن، 2019 میں 2 کروڑ 43 لاکھ ٹن، 2020 میں 2 کروڑ 52 لاکھ ٹن، 2022 میں 2 کروڑ 64 لاکھ ٹن جبکہ امسال 2 کروڑ 76 لاکھ ٹن تک پہنچ گئی ہے۔

ترجمان کسان بورڈ لیاقت یوسفزئی سے جب پوچھا گیا کہ قدرتی آفات کے باوجود بھی گندم کی فصل میں اضافہ کیسے ہوا تو انہوں نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ حالیہ سیلاب نے فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا لیکن جب کٹائی کا عمل شروع ہوا تو بارشیں نہیں ہوئی جس کی وجہ سے پیداوار اچھی رہی۔

لیاقت یوسفزئی کہتے ہیں ” میرے خیال میں اس اضافے سے خیبر پختونخوا کے عوام مستفید نہیں ہوں گے جس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہاں گندم کی کٹائی کا عمل جاری تھا تو اس وقت بھی فی من گندم کی قیمت ساڑھے 6 ہزار روپے چل رہی تھی لیکن جب روس سے گندم برآمد ہوئے تو فی من قیمت ساڑھے 5 ہزار تک پہنچ گئی لیکن اس وقت گندم خریدنے والے موجود ہے مگر فروخت کرنے والے نہیں تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں مستقبل میں گندم کا بحران ایک بار پھر سر اُٹھائے گا۔”

ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ خیبر پختونخوا میں گندم کی پیداوار ضرورت کے مطابق برابر ہوسکیں تو انہیں چاہئے کہ جنوبی اضلاع کرک، ڈیرہ اسماعیل، لکی مروت، کوہاٹ اور بنوں میں بنجر زمینوں کیلئے نہری نظام قائم کردیا جائے۔

ادھر ماحولیات کی ماہرین سمجھتے ہیں کہ گزشتہ سال گندم کی پیداوار میں کمی کی بنیادی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کا رونما ہونا تھا جبکہ امسال موسم تقریباً نارمل رہا ہے۔

پشاور یونیوسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حزب اللہ جان نے ٹی این این کو بتایا کہ دراصل گندم کی کاشت سردیوں کے موسم میں کی جاتی ہے مگر اس کی کٹائی اپریل سے شروع ہو کر مئی تک ہوتی ہے، تو گزشتہ سال 2022 میں کٹائی کے دوران ہیٹ ویو کی وجہ سے فصلیں اپنے وقت سے پہلے پک چکی تھیں جس کی وجہ سے پیداوار کم ہوئی تھی جبکہ اس سال گرمی کی شدت تھوڑی کم رہی تھی جس کی وجہ سے پیداوار میں اضافہ ہوا۔

پروفیسر حزب اللہ جان کہتے ہیں "امسال پیداوار میں چونکہ 1 ملین میٹرک ٹن کا اضافہ ہوا تو میرے خیال میں یہ ملک کی ضروریات کو پوری کرسکتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر مس منیجمنٹ ہے، کچھ لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اس وجہ سے گندم کی بحران پیدا ہوجاتی ہے۔”

مقامی آٹا ڈیلروں کے مطابق خیبر پختونخوا میں اس وقت پنجاب کی نسبت آٹے کی قیمتیں اب بھی زیادہ ہے، اوپن مارکیٹ میں سپیشل آٹے کی 20 کلو تھیلے کی قیمت 2350  ہے۔ اس کے علاوہ فائن کی قیمت 2600 اور سادہ آٹے کی قیمت 2350 روپے رکھا گیا ہے۔

مہنگائی کا جائزہ لینے والے وفاقی ادارہ شماریات نے ملک میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی تصدیق کی ہے۔

پاکستان بیورو آف سٹیسٹک کے تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ سال مئی کی آخری ہفتے میں آٹے کی قیمت گزشتہ سال 2022 مئی کے آخری ہفتے کے مقابلے میں 99 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ضلع چارسدہ کا رہائشی ڈیلی ویجز مزدور فاروق اللہ نے ٹی این این کو بتایا کہ گزشتہ سال وہ آٹے کی فی بوری 1300 روپے میں خریدتے تھے مگر گندم کی پیداوار میں اضافے کے باوجود انہوں نے کل بھی 2500 روپے میں 20 کلو آٹے کا تھیلہ خریدا ہے۔

فاروق اللہ کہتے ہیں ” گندم کی پیداوار کے ساتھ قیمتیں اگر بڑھتی ہے تو اس کا مجھے کیا فائدہ ہوا، میرے پاس کل پانچ ہزار روپے تھے جس میں میری اشیائے ضروریہ پوری نہ ہوسکیں، بحثیت عوام میں تو آج بھی لوٹا جا رہا ہوں، مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟”

ان کے مطابق ایک طرف اگر حکومت آٹے کی پیداوار میں اضافے کا دعویٰ کرتی ہے تو دوسری طرف حکومت اس کی قیمتیں ریگولیٹ نہیں کرسکتے، اس کے لئے ضروری ہے کہ مقامی سطح پر پرائس کمیٹیاں قیمتیں اعلان کردہ قیمتوں کے مطابق برابر کرسکیں ورنہ اس ملکی وسائل کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچے گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button