جرائملائف سٹائل

خیبر پختونخوا میں 68 ہزار سے زائد افراد نشے کی لت میں مبتلا ہوگئے

حسام الدین

خیبر پختونخوا میں 68 ہزار سے زائد ( مرد اور خواتین) افراد آئس اور ہیروئن کے نشے میں مبتلا ہوگئے ہیں جو دیگر منشیات کے استعمال سے زیادہ جان لیوا ہے اور اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں روز بر روز اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

پاکستان میں یونائیٹڈ نیشن آفس آن ڈرگس اینڈ کرائم (یو این او ڈی سی )کی 2022 رپورٹ کے مطابق ملک بھر پندرہ سے ساٹھ سال کی عمر کے آٹھ لاکھ سے زائد افراد منشیات کا استعمال کررہے ہیں جن میں 2.9 فیصد خواتین کو منشیات کی لت لگ چکی ہے۔

خیال رہے کہ منشیات کی اس قسم’ آئس’ میں کیمیکل کی مشہور عنصر ایفنڈرین کے ساتھ دیگر اجزاء کو ملا کر تیار کی جاتی ہے جبکہ مارکیٹ میں اس وقت ایک گرام آئس کی قیمت پانچ سے 10 ہزار روپے تک کی ہے۔ آئس کو مخصوص آلے کے زریعے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ آئس کے استعمال سے نشئی مزیدار بیدار ہوجاتا ہے اور انہیں سات سے 24 گھنٹوں تک نیند نہیں آتی۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ یونائیٹڈ نیشن کے تعاون سے سابقہ صوبائی حکومت نے چار ماہ کے لیے منشیات کے عادی افراد کے لیے صوبے کے مختلف اضلاع میں بحالی مراکز قائم کئے تھے لیکن چار ماہ کے پراجیکٹ ختم ہونے کے بعد یہ مراکز بند ہوگئے جن میں ستر فیصد افراد دوبارہ سے نشے کی لت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔

پشاور میں منشیات کہاں سے آتی ہیں؟

پشاور سے متصل کارخانوں مارکیٹ میں انٹرنیشنل برانڈ کی ‘ایچ ٹی سی’ گولیاں فروخت کی جاتی ہے جو کہ ہیروئن اور آئس سے تیار کی جاتی ہے جس کو بارہ سو روپے پر فروخت کیا جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق اس مارکیٹ میں آئس، چرس اور دیگر منشیات باآسانی مل جاتی ہیں جبکہ نشے میں دھت نشئی پولیس چوکی کے سامنے نشہ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں ڈیوٹی پر موجود اے ایس آئی نے بتایا کہ ان کے پاس ان نشیئوں کا کوئی علاج نہیں ہے کیونکہ جب وہ انہیں گرفتار کرتے ہیں تو پھر لاک اپ میں اپنے جیب سے ان کے لیے منشیات منگوانا پڑتا ہے تاکہ وہ خاموش بیٹھے رہیں ورنہ بصورت دیگر وہ تھانے میں شور مچاتے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال

پشاور میں شہریوں کو یہ نشہ نہایت ہی آسانی سے فراہم ہوتا ہے جبکہ تعلیمی اداروں میں بھی اس نشے کا استعمال عام ہوچکا ہے کیونکہ آئس استعمال کرنے سے طلبہ کو نیند نہیں آتی اور وہ پڑھائی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

جامعہ پشاور کے ایک طالب علم نے نام نہ بتانے کی شرط پر ٹی این این کو بتایا کہ پشاور یونیورسٹی کی پانچ جامعات میں طلبہ کو آئس، شراب اور چرس آسانی سے فراہم کی جاتی ہے جو اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے دھوبی گھاٹ کے راستے سملگ کی جاتی ہے۔

اس ضمن میں پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس خان نے بتایا کہ منشیات کی روک تھام کے لیے یونیورسٹی کے مختلف 16 دروازوں کو بند کرکے صرف چھ دروازوں کو کھولا جائے گا اور ہوسٹلز میں چیکنگ کو سخت کر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

چوری اور ڈکیتی کے بڑھتے واقعات

پشاور شہر کے مختلف علاقوں میں جہاں منشیات کی لت میں مبتلا نوجوان نے راہزنی کا راستہ اپنایا وہی شہر کے پوش علاقےحیات آباد میں چوری اور راہزنی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

حیات آباد فیز فور کے رہائشی حاجی اظہر الدین نے بتایا کہ گزشتہ دنوں بندوق کی نوک پر ان کے پڑوسی کو گاڑی سے محروم کر لیا گیا تو اسی ہفتے ایک شخص سے لاکھوں نقدی چھین کر لے گئے۔

فیز فور کے رہائشی اور سابقہ لوکل گورنمنٹ کے ملازم نے بتایا کہ ان کی گلی میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران بانچ گھروں سے نامعلوم نشئیوں نے چوریاں کی، کسی کے گھر میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے لے اڑے تو کسی کے بجلی میٹر چوری کر لے جاتے ہیں جبکہ بجلی میٹر کی تاریں کاٹ کر بھی لے جاتے ہیں۔

ان کے ایک پڑوسی نے بتایا کہ جب چوکیدار صبح ڈیوٹی کرکے چلا جاتا ہے تو ایک نشئی نے ان کے گھر کے گٹر کے سر چرا کر لے گئے جبکہ گلیوں میں نصب لوہے کے ڈنڈے، جن پر گلیوں کے نمبر لکھے ہوتے ہیں، اکھاڑ کر چوری کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ متعلقہ تھانے کی پولیس برائے نام گشت کرتی رہتی ہے جبکہ کسی چور کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں پشاور کے مضافاتی علاقہ ریگی میں آئس کے عادی نشئی نے شک کی بنا پر اپنے بھائی کو قتل کر دیا جبکہ 17 دن بعد شک کی بنا پر اپنی بیوی کو موت کے گھات اتار دیا۔

ادھر حیات آباد کے متعلقہ تھانے کے پٹرولنگ انچارج سبیح خان نے بتایا کہ چوریوں میں ملوث زیادہ تر نشئ ہوتے ہیں جن کو گرفتار کرلیا جاتا ہے تاہم تھانے میں وہ خود پر باریک آلہ سے وار کرکے خود کو زخمی کردیتے ہیں جن کا علاج پولیس کو اپنے کو پیسوں کرنا پڑتا ہے۔

پشاور کے سی سی پی او اشفاق انور سے اس ضمن میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اس نشے کے عادی افراد اور سپلائرز کیخلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے جس پر جلد عمل پیرا ہوں گے۔

ماہر نفسیات

پاکستان سائیکیاٹرک سوسائٹی اور سائیکیاٹرک فیڈریشن کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر سید محمد سلطان نے اس ضمن میں بتایا کہ آئس، چرس اور ہیروئن کو کسی پودے سے نہیں بلکہ کیمیائی طور پر تیار کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں گردے، جگر اور پھیپڑوں کے تیشوز بہت متاثر ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس نشے میں مبتلا افراد کا وزن دن بدن کم ہوتا رہتا ہے اور وہ دماغی طور پر بالکل مفلوج ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ آئس نشہ کرنے والے کا کوئی علاج موجود نہیں ہے جبکہ کسی بھی وقت کوئی بھی ناخوشگوار حرکت کرسکتے ہیں۔ آئس کے عادی افراد ہر کسی پر شک کرتے ہیں، انہیں برے خیالات آتے ہیں جو کہ بلکل بھروسے کے قابل نہیں ہوتے ہیں جبکہ یہ لوگ اپنے نشے کی لت کو پورا کرنے کےلئے چوری، ڈکیتی اور قتل بھی کر سکتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button