لائف سٹائل

سوشل میڈیا پر جنسی تعلقات، ہم جنس پرستوں کا نقطہ نظر کیا ہیں؟

ہارون الرشید

”میری عمر 16 تھی جب میں نے قسطوں پر سمارٹ فون خرید کر فیسبوک پر اکاؤنٹ بنالیا۔ مجھے پیسوں کی سخت ضرورت تھی تاکہ موبائل کی قسطیں دے دوں۔ ایسے میں فیسبوک پر ایک دوست نے مجھے رقم دینے کی حامی بھری اور مجھے اپنے ٹکانے پر بلا کر وہاں جنسی استحصال کا نشانہ بنایا تاہم میں نے اس عمل میں اطمینانیت کا عنصر پاپا۔”

یہ کہانی خیبر پختونخوا کے ایک علاقے سے تعلق رکھنے عدنان ( فرضی نام) کی ہے جو اپنی شناخت اور پتہ ظاہر کرنا نہیں چاہتے۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے عدنان کا کہنا تھا کہ فیسبوک پر ان کے دوستوں کی تعداد سینکڑوں سے تجاویز کر گئی ہیں جبکہ انہوں نے فیسبوک پر ایک ایسا ٹول بنایا ہے جس کے ذریعے ان کی رومانی وابستگی کی تمنا باآسانی پوری ہوسکتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم جنس سے تعلقات قائم رکھنا ان کی عادت بن چکی ہے۔

عدنان کے بقول ہم جنس پرستی ایک ہی جنس یا صنف کے حامل افراد کے مابین پائے جانے والی رومانوی کشش،  یا جنسی رویہ ہے اور ہم جنس پرست رجحان رکھنے والے لوگ مختلف طریقوں سے اپنی جنسیت کا اظہار کرتے ہیں لیکن آج کل سوشل میڈیا، موبائل ایپس بالخصوص فیس بک نے ان کی خواہشات کی تکمیل کو انتہائی آسان بنا دیا ہے لیکن ساتھ ہی اس کے خطرات نتائج بھی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آج کل بہت سے ہم جنس پرستی کے حامل مرد حضرات اپنی خواہشات پوری کرنے کے لئے فیس بک کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ واٹس ایپ میں پکڑے جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ان میں بیشتر تعداد غیرملکی موبائل ایپ کا بھی سہارا لیتی ہے یہ ایپس VPN کے ذریعے آپریٹ ہوتی ہیں جبکہ ان ایپس میں ہر قسم کے اجنبی ملتے ہیں۔

‘ایپ سے جڑے لوگ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں اور ملاقات کے لیے جگہ اور وقت کا فیصلہ کرتے ہیں موبائل ایپس میں صارف کی پرائیویسی کو برقرار رکھنے کے لئے ایک خفیہ لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ایپ میں اگر کسی شخص کو قابل بھروسہ سمجھا جاتا ہے، وہ بلیک میل نہیں کرتا اور نہ ہی لوٹتا ہے تو اس کے لئے اسے اپنی تصاویر اور ویڈیو سینڈ کرنا پڑتی ہیں۔’

عدنان نے بتایا کہ ایسے میں ان صارفین کو بلیک میل کرنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں اسی طرح کچھ مالی طور پر کمزور لوگ جو ہم جنس پرستوں سے تعلقات بنا کر پیسے کماتے ہیں، ان کے استحصال کے واقعات سامنے آتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ایک اور ہوموسیکسول شخص نے ٹی این این سے گفتگو میں بتایا کہ وہ کافی عرصہ سے ہم جنس پرست کے لئے متعارف کردہ مختلف موبائل ایپ استعمال کرتے ہیں۔ ان ایپس میں اپنی لوکیشن دیدی جائے تو صارفین کی پچاس میٹر تک کا فاصلہ بھی شو ہو جاتا ہے، آپ حیران ہوں گے کہ ہرمحلہ ہر گلے میں آپ کی ہم جنس پرست سے ملاقات ہوگی.

ان کے مطابق سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک اور موبائل ایپ نے ہر چیز کو آسان بنا دیا ہے لیکن اس کے استعمال میں نقصان یہ بھی ہے کہ اگر کسی قریب تر ہم جنس پرست دوسرا ساتھی موبائل ایپ میں تلاش کرکے اسے لوکیشن پر بلایا جائے تو ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کو جانتا ہو یہ آپ کا دوست یا پھرپڑوسی بھی ہوسکتا ہے یہاں تک کہ رشتہ داربھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم جنسیت ہم جنس لوگوں کی طرف سے جذباتی، رومانوی اور جنسی کشش کی مستقل صورت ہے یہ ایک شخص کے احساس کی شناخت کا بھی حوالہ ہے یہ احساس انسان کے اندر پیدائشی یا عمر بڑھنے کے ساتھ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب محکمہ پولیس بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ  شہروں میں ہم جنس پرست تعلقات بڑھ رہے ہیں، خاص طور پر جب سے سوشل میڈیا آیا ہے تو اس غیرقانونی سرگرمیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ایک پولیس آفیسر نے بتایا کہ لوگ سماجی وقار کھونے کے خوف سے ہم جنس پرستی کو ظاہر نہیں کرتے اور نہ ہی پولیس کے پاس شکایات درج کراتے ہیں جب معاملہ تھانے پہنچتا ہے تو اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ان کی شناخت خفیہ رہے، پولیس ان لوگوں کے لئے کونسلنگ کا بھی انتظام کرتی ہے کیونکہ یہ لوگ جلد ہی ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button