لائف سٹائلماحولیات

خشک ہوتے کنویں، لنڈی کوتل کے ہر دوسرے گھر کی کہانی

محراب افریدی

قبائلی ضلع خیبر کے علاقہ لنڈی کوتل کی اسما بی بی کئی میل دورسے گھر کے لئے پانی لاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ابھی دو تین سال پہلے کی بات ہے، ہمارے گھر میں کنواں ہر وقت پانی سے بھرا رہتا تھا۔ اس کنویں سے نہ صرف ہماری ضروریات پوری ہوتی تھیں بلکہ آس پاس کے گھروں کی خواتین بھی باآسانی پانی لے جاتی تھی۔ اب کنواں مکمل  طور پرخشک ہوچکا ہے جس سے ہماری زندگی بالکل بدل گئی ہیں۔ زندگی کے سختیوں میں اضافہ ہوا ہے،

لنڈی کوتل میں پانی کا مسئلہ روز بروز گھمبیر ہوتا جا رہا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے مسئلے کے حل کے لئے کوئی اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق درجنوں کنویں خشک ہوچکے ہیں اور خواتین دور دراز کے علاقوں سے سروں پر پانی لانے پر مجبور ہیں۔

30 سالہ اسما بتاتی ہیں کہ ایسے یا اس سے  ملتے جلتے حالات آج کل لنڈی کوتل میں تقریبا ہر گھرانے کو درپیش ہیں۔ علاقے میں بارشوں کی کمی کے باعث زیر زمین پانی کی سطح روز بروز گرتی جا رہی ہیں۔ اسما بی بی کے گھر کی طرح سینکڑوں کنویں خشک ہو چکے ہیں اور دیگر سینکڑوں خشک ہونے کے قریب ہیں۔

زیرِ زمین پانی کی سطح میں کمی کی شکایات صرف لنڈی کوتل تک محدود نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے 35 میں سے 28 اضلاع اس مسئلے سے دوچار ہیں۔ 27 اگست 2021 کو وفاقی وزارتِ پانی و آبی ذخائر نے سینیٹ میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے کے کچھ اضلاع میں زیرِ زمین پانی کی سطح پچھلے 10 سال سے اتنی تیزی سے گر رہی ہے کہ آئندہ چند سالوں میں انہیں شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں ضلع خیبر میں زیرِزمین پانی کی سطح 74 فٹ گِر گئی ہے جبکہ اسی عرصے میں ضلع ہری پور میں اس میں 61.50 فٹ کمی آئی ہے۔ اسی طرح مہمند، باجوڑ اور کرم کے اضلاع میں اس کی سطح میں 57.42 فٹ، 32.79 فٹ اور 25.75 فٹ تنزلی دیکھنے میں آئی ہے۔

صوبائی محکمہ پبلک ہیلتھ کے سپر ٹنڈنٹ قاضی کا کہنا ہے کہ زیرِزمین پانی میں کمی کے نتیجے میں صوبے کے مختلف حصوں میں نصب تقریباً پانچ سو ٹیوب ویل خشک ہو چکے ہیں۔

لنڈی کوتل میں کم بارشوں اور موسمیاتی تبدیلی کے دوسرے اثرات کی وجہ سے سینکڑوں کنویں خشک ہو چکے ہیں: تصویر- محراب افریدی

لنڈی کوتل کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سالہا سال پانی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اگر حکومت چاہے تو پینے کا پانی گھر گھر تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ علی مسجد کے پرانے منصوبے کو دوبارہ کارآمد بنانے، چھوٹے بارانی ڈیمز بنوانے اور شلمان واٹر سپلائی سکیم کے ذریعے پانی کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے مگر یہاں قبائلی علاقوں میں مسائل حل کرنا حکمرانوں کی ترجیحات نہیں رہی ہیں۔

لنڈی کوتل پیروخیل کے رہائشی وقاص شینواری کا کہنا ہے کہ خیبر کے علاقے میں پانی کا مسئلہ تو ہر جگہ ہے لیکن علاقہ پیرو خیل میں پانی کا مسئلہ بہت زیادہ ہے۔ یہاں پانی کے جو چھوٹے کنویں تھے ان کنووں میں سے اب بہت سے  خشک ہوچکے ہیں اور اس طرح زیادہ تر کنووں میں پانی کی سطع کم ہوتی جارہی ہے۔ علاقہ پیروخیل میں زیر زمین پانی کی سطح نیچے چلی گئی ہے جو کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر ہے اوراس طرح زیادہ تر کھودے گئے کنووں اور ٹیوب ویلوں میں پانی دستیاب نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں زیادہ تر لوگ غریب ہیں جو پانی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور خواتین اور بچے شدید موسمی حالات میں پانی لانے کے لئے طویل فاصلہ طے کرتے ہیں۔

پبلک ہیلتھ سپرٹنڈنٹ قاضی کے مطابق پورے لنڈی کوتل میں تقریبا پچاس بڑے ٹیوب ویلز ہیں جن میں اکثر ٹیوب ویلوں پر سولر سسٹم لگایا گیا ہے کیونکہ قبائلی اضلاع اور خاص کر لنڈی کوتل میں بجلی کا سخت مسئلہ ہے جب بجلی نہیں ہوتی تو پھر ٹیوب ویل بند پڑے ہوتے ہیں۔  اس طرح ایک اندازے کے مطابق چالیس تک بڑے ٹیوب ویلز این جی اوز کی مدد سے لگائے گئے ہیں۔  ان ٹیوب ویلوں سے لاکھوں کی آبادی مستفید ہوتی ہے۔

وقاص شینواری کا کہنا ہے کہ شینواری کے علاقے میں پانی کے کنویں بہت زیادہ ہے ہر گھر اور گاؤں میں ٹیوب ویلز ہیں۔ وہاں  پندرہ سے لے کر بیس گز تک پانی باآسانی نکل آتا ہے اس لئے زیادہ تر لوگوں نے خود ٹیوب ویلز لگائے ہوئے ہیں۔

لیکن بارشوں کی کمی کی وجہ سے اس علاقے کے ٹیوب ویلز بھی خشک ہو رہے ہیں۔ وقاص شنواری کہتے ہیں کہ لنڈی کوتل میں پانی کا مسئلہ اس لئے بھی ہے کہ یہاں بارانی ڈیم نہیں ہیں۔ جب بارشیں ہوجاتی ہیں تو یہاں پر پانی سٹور نہیں ہوتا اور دریاؤں میں بہہ جاتا ہے۔

۔جماعت اسلامی کے ڈسٹرکٹ خیبر کے جنرل سیکرٹری مراد حسین آفریدی کا کہنا ہے کہ لنڈی کوتل میں بارانی ڈیم بارش کا پانی ذخیرہ کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے جو منتخب نمائندے تھے انہوں نے صرف وعدے کئے تھے ابھی تک عملی کام نہیں کیا ہے۔ شلمان واٹر سپلائی سکیم کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ کاغذات میں تو موجود ہے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ سکیم مکمل ہو جائے تو لنڈی کوتل کی 80 فیصد آبادی کو پانی کی فراہمی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شلمان واٹر سپلائی سکیم کی PC-1 مئی 2021 میں تیار کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے پر 5,534 ملین روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ لنڈی خانہ واٹر سپلائی سکیم بھی شروع نہ کیا جا سکا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ علی مسجد سے پائپوں کے ذریعے انگریز دور کے منصوبے کو ازسر نو شروع کرکے اس سے لنڈی کوتل کی بڑی آبادی کو پینے کا صاف پانی پہنچایا جا سکتا ہے جس پر خرچہ بھی کم آئیگا کیونکہ اس منصوبے کے زیادہ تر پائپ بلکل سلامت پڑے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button