لائف سٹائل

"فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کو زچگی کی بھی چھٹی نہیں دی جاتی”

نازیہ

 آسیہ بی بی (فرضی نام ) پشاور کی ملبوسات کی ایک فیکٹری میں 6 سال سے دیگر 400 مزدوروں کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فیکٹری میں کام کرنے کی شرائط بہت سخت ہے اور ہمیشہ ملازمت سے نکالے جانے کا خطرہ رہتا ہے کیونکہ انکے پاس کوئی تحریری معاہدہ موجود نہیں ہے اور ملازمت کا ثبوت صرف ایک کارڈ ہے۔ ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ کارخانے کی انتظامیہ خود مزدوروں کی حاضری لگاتی ہے اور اکثر 9 گھنٹے کے بعد انکو باہر جانے کا کہا جاتا ہے تاکہ اگر کوئی ریکارڈ کا معائنہ کرے تو یہ ظاہر ہو کہ انتظامیہ قانون کی پاسداری کر رہی ہے اور نا ہی کوئی اوور ٹائم کام ہو رہا ہے۔

آسیہ نے بتایا ک” کچھ دن ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ہم اوور ٹائم کر رہے ہوتے ہیں اور انکو بیماری کی بھی چھٹی نہیں دی جاتی اور چھٹی کی صورت میں انکی تنخواہ سے کٹوتی کی جاتی ہے۔ زچگی کے لیے بھی کوئی چھٹی نہیں دی جاتی ہے بلکہ ایسی خواتین کو تو ملازمت چھوڑنے کا کہا جاتا ہے۔”

آسیہ نے بتایا کہ ہم مزدور خواتین کی شکایات میں درجنوں مزدوروں کو بلا وجہ برخاست کرنا، حفظان صحت کے منافی کام کرنا، طویل اوقات کار اور کم از کم مقرر کردہ اجرت سے کم تنخواہ شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ "سب سے اہم مسئلہ ہم خواتین کے لیے واش رومز کا ہے لیکن اگر ایسے حالات میں اگر کوئی خاتون شکایت درج کرتی ہے تو اگلے دن اس پر پریشر ڈالا جاتا ہے کہ اپنی شکایت واپس کر لے ورنہ اپ کی تنخواه روک دی جائینگی اور کام سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اس موقع پر غربت کے مجبور ہم چپ ہو جاتے ہیں اور ائندہ کے لیے منہ کو تالا لگا لیتے ہیں۔”

آسیہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس سے پہلے ایک بڑے کارخانے میں کام کرتی تھی وہاں کے حالات تھوڑے سازگار تھے لیکن وہاں کی کچھ ایسی شرائط تھی جو وہ قبول نا کر پائی جس کی وجہ سے انکو وہاں سے نکال لیا گیا۔ چھوٹی فیکٹریوں میں کام کرنے کے حالات بڑے فیکٹریوں کی نسبت زیادہ برے ہوتے ہیں۔ چھوٹے کارخانوں کے مالکان مزدوروں کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ سے بھی کم اجرت ادا کرتے ہیں اور ملازمت کے لیے معاہدہ کم مدت کے لیے کرتے ہیں۔ فیکٹریوں میں ان خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہے مگر انکا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور نہ وہ یہ ملازمت غربت کی وجہ سے چھوڑ سکتے ہیں۔

آسیہ نے بتایا کہ اکثر چھوٹے بچے اپنی ماؤں کے ساتھ فیکٹری میں آتے ہیں تو وہ بغیر کسی رسمی معاہدے کے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ ان کی عمریں 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہوتا اور نا ہی ان کو اپنے حقوق کا پتہ ہوتا ہے تو انہیں انتہائی کم تنخواہ پر رکھا جاتا ہے۔

اسیہ نے یہ بھی بتایا کہ حالانکہ ہماری فیکٹری اچھا خاصا کماتی ہے اور وہ بھی ہماری بدولت مگر ہماری تنخواہ وہی کی وہی ہے۔ خواتین مزدور ہراسانی کے بارے میں بات کرنے میں انتہائی شش و پنج کا شکار ہوتی ہیں۔

اس حوالے سے ایڈوکیٹ ہائی کورٹ کائنات محب کاکا خیل سے گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ فیکٹریوں میں ان خواتین کے بچوں کے لیے کوئی ڈے کیئر سنٹر نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ان خواتین کو اخر میں پینشن بھی نہیں ملتا۔ اج کے وقت کے مطابق ان کی تنخواہ 21 ہزار بنتی ہے جبکہ ان کو 21 ہزار نہیں دیے جاتے۔ پاکستان میں اسیہ بی بی جیسی لاکھوں مزدورخواتین ہے جو استحصال اور قوانین کے غلط استعمال کا شکار ہے۔

کائنات نے بتایا کہ کارخانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین مزدوروں کی حفاظت کریں اور ان کے حقوق کو پامال نا کریں۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کے حالات  نہ صرف پاکستانی قوانین کے منافی ہے بلکہ یہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔

ان خواتین کی شکایات کے لیے ایک موثر طریقہ کار قائم کیا جائے تاکہ خلاف ورزیوں کے خلاف یہ خواتین اپنی آواز اٹھا سکیں۔ ان خواتین کے خلاف تعصب اور امتیازی سلوک کو روکنے کے لیے پالیسی بنائی جائیں اور اس پر مؤثر عمل کرنے کی تاکید کی جائیں۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button