مارخور کی تعداد میں کمی کی وجوہات کیا ہیں: بارڈر فینسنگ، ماحولیاتی تبدیلی یا غیرقانونی شکار؟
عثمان دانش
چترال گول نیشل پارک میں مارخوروں کی تعداد میں کمی کا انکشاف ہوا ہے۔ ویلج کنزرویشن کمیٹی نے چترال میں مارخوروں کی صحیح تعداد معلوم کرنے کے لئے غیرجانبداد ادارے سے سروے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ چترال سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی عبدالاکبر چترالی نے بتایا کہ مار خور کا غیرقانونی شکار ہو رہا ہے جس کی وجہ سے تعداد کم ہو گئی ہے۔
نیشنل پارک میں مارخوروں کے گم ہونے کے انکشاف کے بعد چیف کنزرویٹر وائلڈ لائف خیبر پختونخوا نے اس کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چترال میں مارخوروں کے غیرقانونی شکار کی وجہ سے اس کی تعداد انتہائی کم رہ جانے کے بعد 1984 میں گول نیشنل پارک کا قیام عمل میں آیا، اس وقت نیشنل پارک میں مارخوروں کی تعداد 100 سے 125 تھی، شکار پر پابندی اور دیگر اقدامات کی وجہ سے مارخوروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور 2007 میں تعداد 687 تک پہنچ گئی۔ 2016 سے 2019 تک مارخوروں کی تعداد میں ہر سال مزید اضافہ ہوتا رہا، 2016 میں چترال گول نیشںنل پارک میں مارخوروں کی تعداد 2 ہزار 286 جبکہ چترال بھر میں تعداد 4 ہزار 267 تھی۔ 2017 میں گول نیشنل پارک میں تعداد بڑھ کر 2 ہزار 489 ہو گئی۔
چترال کے دیگر علاقوں میں مارخوروں کی مجموعی تعداد 4 ہزار 550 رہی۔ 2018 میں تعداد نیشنل پارک میں 2 ہزار 664 جبکہ چترال میں ٹوٹل تعداد 5 ہزار 68 ہو گئی تھی۔ 2019 میں مارخوروں کی تعداد سب سے زیادہ نیشںنل پارک میں 2 ہزار 845 جبکہ چترال کے مختلف علاقوں میں کل تعداد 5 ہزار 347 تک پہنچ گئی تھی۔ 2020 میں مارخوروں کی تعداد میں کمی دیکھی گئی اور اب تعداد نیشنل پارک میں 1 ہزار 996 جبکہ مجموعی طر پر چترال میں تعداد 4 ہزار 345 رہ گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2019 سے 2020 تک مارخوروں کی تعداد میں ایک ہزار تک کمی دیکھی گئی جبکہ رواں سال کا سروے ابھی مکمل نہیں ہوا۔ 2016 سے 2020 تک 164 مارخوروں کا شکار ہوا۔ وائلڈ لائف رپورٹ کے مطابق مارخوروں کی تعداد کم ہونے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ 2020 میں چترال میں کم برف باری کی وجہ سے بھی مارخوروں کی تعداد میں کمی آئی ہے اور دوسری وجہ مارخوروں کا موسم سرما میں افغانستان کے علاقوں سے واپس نہ آنا بھی ہے۔
رپورٹ کے مطابق گول نیشنل پارک کے مغربی اور جنوب مغربی بارڈ پر مارخور خوراک کی تلاش میں معمول کے مطابق افغانستان جاتے رہتے ہیں۔ پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام جاری ہے اور کچھ جگہوں پر باڑ لگ چکا ہے، جو مارخور اس طرف رہ گئے ہیں باڑ کی وجہ ان کی واپسی کا راستہ بند ہو گیا ہے اور دوسرا یہ کہ باڑ لگانے کے لئے بارڈر پر کام جاری ہے جس کی وجہ سے وہاں پر نقل وحرکت جاری رہتی ہے، جنگلی جانور انسانوں سے دور رہنا پسند کرتے ہیں اس وجہ سے ان علاقوں سے مارخور واپس نہیں آ رہے اور تعداد میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
عبدالاکبر چترال کے بتایا کہ وائلڈ لائف ڈویژن چترال سروے کے مطابق اب مارخوروں کی تعداد 2 ہزار رہ گئی ہے لیکن جو مقامی لوگ ہیں ان کے مطابق ماروخورں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مارخوروں کی تعداد 800 تک رہ گئی ہے۔
ڈی ایف او چترال گول نیشنل پارک سید صمد حسین نے بتایا کہ سروے میں مارخوروں کی تعداد کم دکھائی گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مارخور گم ہو گئے ہیں یا مارے گئے ہیں، مارخوروں کی تعداد کم ہونے کی مختلف وجوہات ہیں۔ صمد نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا بھی تعداد کی اس کمی میں عمل دخل ہے۔ محکمہ موسمیات رپورٹ کے مطابق گزشتہ 4 سالوں کی نسبت 2020 چترال میں موسم خشک سال رہا، ہر سال سروے کا مقصد جانوروں کی تعداد کے ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا جانوروں پر اثر کا بھی اندازہ لگایا جا سکے۔
مارخوروں کی تعداد معلوم کرنے کے لئے سروے موسم سرما میں ہوتا ہے، وقت پر برف باری شروع نہ ہونے کی وجہ سے مارخور اور دیگر جانور پہاڑوں کی چوٹیوں پر غاروں یا کسی ایسی جگہںوں پر رہ جاتے ہیں جہاں سے پھر برف زیادہ پڑنے کی وجہ سے ان کا نیچے علاقوں تک آنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پچھلے سال چترال میں برف باری دیر سے شروع ہوئی اور کم بھی تھی۔ مارخور سردیوں میں جب پہاڑوں سے نیچے علاقوں میں آتے ہیں تو سروے ہوتا ہے۔ پچھلے سال برف کم پڑنے کی وجہ سے مارخور اس تعداد میں نیچے علاقوں میں نہیں آئے اس وجہ سے سروے میں تعداد کم آئی ہے۔ صمد نے بتایا کہ مارخوروں کی تعداد معلوم کرنے کا سروے آسان نہیں ہے، ”مارخور پہاڑی جانور ہے جب یہ نیچے آتے ہیں تب سروے کیا جاتا ہے، پہاڑوں پر چڑھ کر سروے کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔”
اس سوال پر کہ کیا پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا عمل بھی تعداد میں کمی پر اثر انداز ہو رہا ہے، ڈی ایف او صمد نے بتایا کہ سروے میں تعداد میں کمی کی دوسری وجہ پاک افغان بارڈر پر فینسنگ بھی ہے۔ چیف کنزرویٹر وائلڈ لائف رپورٹ میں بھی اس کو مینشن کیا گیا ہے۔ مارخور ایسا جانور ہے جو پہاڑ کی چوٹیوں پر انسانوں سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں بارڈر پر کوئی رکاوٹ نہ ہو تو جانوروں ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے رہتے ہیں اور اس کو ٹرانس باونڈری مومنٹ کہتے ہیں۔ ہمارے فیلڈ سٹاف کئی سالوں سے یہ مشاہدہ کرتے آئے ہیں کہ مارخور اور دیگر جانور بارڈر گراس کر کے افغان صوبے نورستان جاتے رہتے ہیں۔ اب بارڈر پر باڑ کا کام جاری ہے اور اطلاعات کے مطابق زیادہ تر بارڈر پر باڑ کا کام مکمل ہے اور جو باقی ہے وہاں پر کام جاری ہے۔ انسانی نقل وحرکت جہاں زیادہ ہو جاتی ہے تو جنگلی جانور وہاں رہنا پسند نہیں کرتے، ہو سکتا ہے کہ جو مارخور بارڈر کراس کر گئے ان کی مائیگریشن کا جو راستہ تھا یا تو وہ باڑ کی وجہ سے بند ہو گیا ہو یا وہاں پر کام کی وجہ سے جانوروں کا واپس آنا ممکن نہ ہو۔
ڈی ایف او صمد نے بتایا ”ہمارے پاس تمام دستاویز موجود ہیں، جس کو شکایت ہے وہ آئے ہم ان کو حقیقت سے آگاہ کریں گے۔”
عبدالاکبر چترال نے بتایا کہ مارخوروں کے تحفظ کے لئے کمیونٹی واچرز تعینات کئے گئے ہیں لیکن انھیں گزشتہ کئی ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہیں، دو سالوں میں مارخوروں کی تعداد میں تیزی سے کمی کو روکنے کے لئے وائلڈ لائف ڈویژن، چیف کنزرویٹر اور ڈی ایف او سے بار بار درخواست کی لیکن ابھی تک کوئی اقدامات نہیں کئے گئے، اب قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی میں اس مسئلے کو اجاگر کریں گے۔