خیبرپختونخوا حکومت پیسکو کا کنٹرول سنبھالنے میں کیوں ہچکچا رہی ہے؟
آفتاب مھمند
خیبرپختونخوا کی نگران حکومت کی جانب سے صوبے کی بجلی تقسیم کار کمپنی پیسکو کی بھاگ ڈور سنبھالنے سے انکار نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ کچھ لوگ اراء دے رہے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ایک نہ ایک دن صوبائی حکومت کو اس کمپنی کی بھاگ ڈور سبنھالنی ہی پڑے گی۔ جبکہ بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ اس صورتحال میں جب کمپنی اربوں روپے کی خسارے میں جا رہی ہے، نگراں حکومت کی جانب سے انکار ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے۔
گزشتہ دنوں نگراں وزیراعلیٰ اعظم خان نے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کو باقاعدہ طور پر خط لکھ دیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا مالی مشکلات کا شکار ہے لہذا صوبائی حکومت پیسکو کا انتظام لینے کو تیار نہیں۔ پیسکو کے اختیارات صوبے کو دینے سے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ نگران وزیراعلی کیجانب سے لکھے گئے خط کے مطابق پیسکو کا اختیار دینا ہے تو پاور ہاوسز اوران کی آمدن بھی صوبے کو دی جائے۔ پیسکو کو ہر سال 200 ارب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خیبرپختونخوا کو پہلے سے ہی بقایاجات نہیں مل رہے ہیں۔
امن وامان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے صوبے کو مسائل درپیش ہیں لہذا ایسے میں پسکو کا کنٹرول صوبہ خیبر پختونخوا کو نہ دیا جائے۔ نگران وزیر اعلیٰ کیجانب سے لکھے گئے خط میں منسٹیرئیل لیول کی کمیٹی بنانے اور ایسے ہی ایشوز کو فوکس کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
پیسکو خسارے میں کیوں ہے؟
ترجمان مسلم لیگ نواز اور ماہر شعبہ بجلی و توانائی اختیار ولی کہتے ہیں کہ نگران وزیراعلی نے یقینا وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کو خط اسلئے لکھا ہوگا کہ پیسکو خسارے میں ہے اور موجودہ صوبائی سیٹ اپ بھی ایک نگران حکومت کی ہے لہذا وہ پسکو کا بوجھ اپنے سر نہیں لینا چاہتے۔ پیسکو کی خسارے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے اختیار ولی کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں کنڈا کلچر، بجلی کی چوری، میٹر نہ لگوانے یا نہ ہونے، بلوں کی 100 فیصد ریکوری نہ ہونا جیسے معاملات ہیں۔ صوبے میں بجلی تو خرچ ہو رہی ہے اور مذکورہ جیسے وجوہات کے باعث ریکوری بھی کم ہے۔ اسی طرح پیسکو کے اپنے ماہانہ اخراجات بھی ہوتے ہیں پھر تو نقصان ہی ہونا ہے۔
کیا پیسکو کا انتظام سنبھالنا صوبائی حکومت کی آئینی مجبوری ہے؟
اختیار ولی کہتے ہیں کہ وفاق کی یہ بات درست ہے کہ کیسکو، ہیسکو، ٹیسکو وغیرہ کیطرح پسکو کا کنٹرول بھی صوبائی حکومت کو دیا جائے۔ وفاق یہ کوئی آج نہیں کہہ رہا جب سے 18 ویں ترمیم وجود میں آئی ہے اس وقت سے کہا جارہا ہے۔ پھر جب فاٹا کا انضمام ہوا تو اس وقت یہ آواز مزید زور پکڑنے لگی تھی کہ پسکو کا کنٹرول خیبر پختونخوا حکومت کو دیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں اختیار ولی کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ وفاق اور خیبرپختونخوا کے کسی بھی صوبائی حکومت کے مابین معاملات طے پائے جائیں تو 18ویں ترمیم کے تحت پیسکو کا کنٹرول صوبہ خیبر پختونخوا کو دیا جائے گا۔
اختیار ولی کے مطابق ایسا ایک نہ ایک دن ہونا بھی ہے اور بجلی کی تمام تقسیم کار کمپنیوں کا اختیار متعلقہ صوبائی حکومتوں کو دینا ہی ہوگا۔
اسکے فوائد بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ایک تو بجلی کی پیدوار کے بعد اسکے خرچ ہونے پر صوبوں کا اپنا کنٹرول ہوگا۔ صوبہ اپنے معاملات خود ہی دیکھے گی۔ وفاق کے ذمے بقایہ جات جیسے ایشوز بھی پھر درپیش نہیں ہونگے۔ جہاں تک نقصانات کا تعلق ہے ان کو کنٹرول کیا جا سکے گا، جیسا کہ پیسکو کے ملازمین بھی پھر صوبائی حکومت کے زیر نگرانی ہونگے اور باقاعدہ چیک اینڈ بیلنس ہوگی۔ ملازمین سے پھر کارکردگی بھی مانگی جائے گی۔
بجلی چوری، کنڈا کلچر، بلوں کی عدم ادائیگی معاملات پھر صوبہ خود دیکھ کر کنٹرول کر سکے گی۔ دیگر محکموں کیطرح بجلی و توانائی کا اپنی ہی وزارت ہوگی جو صوبے اور عوام کو براہ راست جواب دہ بھی ہونگے۔
ابھی تو جہاں نقصان کی بات آتی ہے کوئی بھی ذمہ داری نہیں لے رہا۔ بجلی کی پیداوار اور پھر فروخت کرنے کا جو فائدہ ہوگا وہ بھی براہ راست صوبے کو ملیگا لہذا اب وقت کی شدید ضرورت ہے کہ پیسکو کا اختیار باہمی رضامندی اور تعاون کے ذریعے صوبہ خیبر پختونخوا کو دیا جائے۔ صوبے کے کنٹرول میں آنے کے بعد ہی پیسکو کا باقاعدہ ایک مکینزم طے ہو پائےگا ساتھ ساتھ ایک باقاعدہ ڈھانچہ بھی تشکیل دیا جائے گا۔
پیسکو کا کنٹرول سنبھالنے سے صوبے کو فوائد کیا ملیں گے؟
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے سینئیر صحافی شاہد حمید مسلم لوگ نون کے صوبائی ترجمان اختیار ولی سے مکمل اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیسکو کا کنٹرول سنبھالنے میں صوبے کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ صوبے کو نقصان ہی نقصان ہوگا۔
شاہد حمید کہتے ہیں کہ وفاق اگر پیسکو کا کنٹرول صوبہ خیبر پختونخوا کو دے بھی دے تو فائدہ کچھ نہیں ہوگا۔ کنٹرول دینے کے باوجود صوبے کو ضرورت سے زیادہ بجلی نہیں ملے گی۔ جتنا بجلی ہم استعمال کر رہے ہیں یا ہماری ضرورت ہے وہی ہمیں ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا تو اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ جو بجلی ہم سے اضافی ہے وہ اختیار وفاق کیساتھ ہی رہیگا۔ مطلب ہم اضافی بجلی کو فروخت نہیں کرسکیں۔ تو پیداوار کے باوجود جب صوبہ بجلی فروخت نہیں کرسکتا اور اسکا کنٹرول صوبے کے پاس نہ ہو تو پھر تقسیم کار کمپنی کا کنٹرول لینے کا فائدہ ہی نہیں۔
ایک طرف ہمیں مالی فائدہ نہیں ہوگا دوسری طرف ہر طرح کے صارفین سے ریکوری کرنا صوبے کی ذمہ داری ہوگی جوکہ اتنا آسان کام نہیں۔ شاہد حمید کہتے ہیں کہ جہاں ارزاں نرخوں پر بجلی ملنے کا سوال ہے وہ اختیار بھی مرکز اپنے ہی پاس رکھے گا۔ مطلب فی یونٹ بجلی کی نرخ بھی مرکز طے کرے گا۔ بجلی بھی ہم پیدا کر رہے ہیں۔ استعمال کا اختیار بھی ہمارے پاس نہیں، نرخ بھی ہم مقرر نہیں کرسکیں گے، فروخت بھی نہیں کر پائیں گے ایسے میں اگر پسکو کنٹرول خیبر پختونخوا کو دیا بھی جائے تو فائدہ کچھ نہیں ہوگا۔
خیبرپختونخوا میں بجلی کی پیداوار اور ضرورت کتنی ہے؟
خیبرپختونخوا میں ورسک، تربیلا بڑے پاور ہاوسز ہیں اسی طرح سوات، چترال کا گولن گول، دیر میں بھی چھوٹی سطح کے پاور ہاوسز موجود ہیں جن سے پیدا ہونے والی بجلی مرکز کو دی جاتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں بجلی کی پیداوار 6500 یا اس سے تھوڑا زائد میگاواٹ کی ہے جبکہ یہاں کی ضرورت 1300 سے لیکر 2300 تک میگاواٹ ہے۔ سردیوں میں بجلی کا استعمال و ضرورت کم اور گرمیوں میں بڑھ جاتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں پیسکو حکام کا کہنا تھا کہ زیادہ پیداوار کے باوجود شارٹ فال اسلئے ہے کہ سسٹم پرانا ہے، تاریں وغیرہ پرانے ہیں لہذا سسٹم 1250 میگاواٹ سے زائد کا بوجھ برداشت ہی نہیں کر سکتا۔ اسکے لئے پورے سسٹم کی اپگریڈیشن اب وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔