بلاگزخیبر پختونخوا

اختلاف رائے اور اعتدال !، کیا مذہبی انتہا پسندی نے واقعی ہمیں دشمن سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے؟

مولانا خانزیب

علامہ یوسف القرضاوی کہتے ہیں کہ  اعتدال دو باہم متضاد پہلووں کے درمیان ایسا منصفانہ رویہ ہے جس میں کسی ایک سے صرف نظر کرکے دوسرے کی ہی رعایت نہ کی جائے، یعنی افراط کا رویہ اختیار کیا جائے اور نہ تفریط کیا۔

اختلاف رائے ایک حسن ہے، خاص کر علمی میدان میں بڑے بڑے آئمہ کرام کے درمیان بھی یہ حسن موجود رہا ہے ۔ لیکن اختلاف، تنقید اور تذلیل میں فرق ہے۔ اختلاف کا حق تقریباً ہر کسی کو حاصل ہے اور تنقید کا حق ہر کسی کے لئے نہیں جبکہ تذلیل کا حق کسی کوبھی حاصل نہیں ہے۔

تنقید اپنی علمی حیثیت کی بنیاد پر ایک علمی اصطلاح ہے جس پر ادبی حوالوں سے بہت مباحثے کئے گئے ہیں جبکہ ہم اختلاف رائے اور معاشرتی امور میں کسی کے قول و فعل پر تنقید واختلاف رائے اور عدم برداشت کے حوالے سے بات کریں گے کہ کیوں ہم اس حوالے سے ایک سماجی گھٹن کا شکار ہیں۔

عدم برداشت ایک سماجی روگ بن گیا ہے اور ہم بحیثیت مجموع اس تآثر کے زیر اثر ہیں یہ ایک ایسی دماغی کیفیت ہے جہاں کوئی انسان ہر چیز، ہر انسان اور ہر واقعہ کو صرف ایک ہی زاویہ سے دیکھتا ہے اور صرف اپنے آپ کو ہی درست سمجھتا ہے ۔ یہ کیفیت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ اس مرض کے شکار انسان اپنے خلاف یا اپنے خیالات یا عقائد کے خلاف ہر آدمی کو کافر سمجھ کر اسے قتل کرناعین عبادت سمجھتا ہے۔ ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ ہمارے نوے فیصد مسائل کی وجہ عدم برداشت ہے کیونکہ اس سے بہت سی ذہنی‘ نفسیاتی ’اخلاقی اور سماجی قباحتیں جنم لیتی ہیں۔

ایک مفکر کے مطابق کسی مسئلے پر آپ کی اپنی رائے ہونا بہت اچھی بات ہے لیکن عقل مندی یہ ہے کہ دوسرے کی رائے کو بھی تسلیم کیا جائے۔ کسی فرد میں پختگی ااور اعتدال اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ دوسرے کی رائے کے ساتھ co- existکرنا سیکھ جاتا ہے۔

کسی بھی سماج کی تطہیر اور ترقی کے لیے اختلاف رائے اور تنقید اہم ہے۔ چونکہ اس طرح معاشرہ کا سیاسی، سماجی اور معاشی نظام آگے بڑھتا رہتا ہے اور نئی روایات وخیالات کی داغ بیل ڈھلتی رہتی ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مناظرہ اور مناقشات کے بجائے اختلاف رائے کے تحت رواداری اور مکالمہ کے کلچر کو آگے بڑھایا جائے۔ اختلاف رائے یا تضاد جدلیات کا ایک سائنسی قانون ہے۔ جس کا مغز یہ ہے کہ فطرت کا ارتفا ء اور چیزوں کی نشوونما تضاد سے جنم لیتی ہے۔

فطرت اورمادہ کا یہ تضاد ایک سائنسی عمل ہے جسکے سبب چیزیں بہتر سے بہترین کی طرف گامزان رہتی ہیں۔اور حیات نو کا باعث بنتیں ہیں۔تاہم تضاد کا یہ قانون معاشرتی ارتقاء میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور اس کے قوانین کا سما جی ارتقا ء میں بھی یکسا ں طور پر اطلاق ہوتا ہے ۔ مختصراً یہ کہ اختلاف اور تضاد فطرت اور سما ج میں چیزوں کی نشوونما اور رو یو ں کی بہتری کا ایک بنیادی اصول ہے ۔ اس ضمن میں ، ایک صحت مند سماج کے قیام کے لئے ہمارے ایسے تنگ نظر معا شرہ میں انفرادی اور اجتماعی رویوں میں توازن اور اعتدال پیدا کر نے کے لئے اسے ایک بڑی قدر کے طور پر فروغ دینے کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔

مسلمانوں کو جتنا نقصان مذہبی انتہاپسندی اور شدت پسندی نے پہنچایا ہے، اتنا نقصان شاید دشمنان اسلام بھی نہ پہنچا سکے ہوں۔ مذہب انسانیت کی معراج تک پہنچانے کا ذریعہ ہے، لیکن انتہاپسند رویوں کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں کوئی خاطرخواہ تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات کی اصل روح سمجھنے کی بجائے ان چیزوں میں الجھ جاتے ہیں جن کی ہم سے ڈیمانڈ بھی نہیں کی جا رہی ہوتی۔ اسلام نے ہمیں میانہ روی اختیار کرنے کی تعلیمات دی ہے، لیکن اکثر و بیشتر روزمرہ زندگی سے لے کر تمام اہم مواقع تک ہمارے عمل عموماً انتہاپسندی کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔

تنقید سہنا واقعی آسان نہیں ہوتا، خاص طور پر جب آپ نے اپنی طرف سے بہت محنت و دل سے کوئی کام کیا ہو مگراس پر کوئی تنقید کرے تو اسے سہنا بہت مشکل ہوتا ہے اور موڈ خراب ہو ہی جاتا چاہے وقتی ہی سہی۔

یہ بھی ٹھیک بات ہے کہ اصلاح کے لیے مثبت تنقید ضروری ہوتی ہے مگر اسکو کہنے و بتانے کا انداز و وقت کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں ہر وقت خود کو ” سیکھنے ” کی حالت میں رکھنا چاہیے۔ خاص طور پر ” کیا کہنا ہے ۔ کیسے کہنا ہے اور ” کب کہنا ہے” ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں ہمیں تعریف و پزیرائی والے ملتے ہیں وہی پر منفی رائے و تنقید کرنے والوں سے بھی پالا لازمی پڑے گا۔ فرق یہ ہے کہ اصلاحی تنقید کرنے والا ہمیشہ آپکو ذرا سائیڈ پر کر کے ، اکیلے میں یا بہت ہی اپنوں کے درمیان دوستانہ لہجہ اور دلیل کے ساتھ تنقید کرے گا۔ پہلے آپکی اچھی بات و کام کو بیان کرے گا پھر اصلاح ودرستگی والی بات بیان کریگا۔ دوسری طرف منفی تنقید ، حاسد ، نیچے گرانے والا ہمیشہ سب کے سامنے غلطی و برائی کر کے شرمندہ کرنے اور حوصلہ نچوڑ دینے میں پہل کرے گا۔

ہماری سوسائٹی تنقیدی شعور سے بہت دور ہے مثبت تنقید کو بھی لوگ گالی کے زمرے میں لیتے ہیں سوشل میڈیا اور روز مرہ زندگی میں جذباتی ومنافرت انگیز مقررین سمیت کسی سے بھی اختلاف کرتے ہوئے ہر گز گالی مت دیں !  بلکہ ان سے دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کریں مستحکم دلیل سے انکی حقیقت کو آشکارا کریں گالی فتویٰ بازی شور شرابا فکر خام کی علامت ہوتا ہے اور وہ مخالف کے بیانئے کو کمزور کرنے کے بجائے تقویت کا باعث بنتا ہے ۔فکر و نظر کی دنیا میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی انسانوں کے عقول متفاوت ہوتے ہیں ۔یہ غورو فکر کا مسلسل عمل ہی ہے جو کسی سماج کے زندہ ہونے کی علامت ہوتا ہے۔اس سے جہاں روایات پر نئی نسل کا ایمان پختہ ہوتا ہے وہاں اسے یہ موقع ملتا ہے کہ نئے دریافت شدہ حقائق کو بھی اپنے افکار کا حصہ بناتے رہیں۔تاہم سوچ بچار کایہ عمل اسی وقت نتیجہ خیزہوتا اور مثبت ارتقا کو یقینی بناتا ہے جب یہ تنقیدی شعور سے بہرہ مند ہو۔

 

تنقیدی شعور فکری ارتقا کو ایک نظم کا پابند بناتا ہے۔اس کے آداب متعین کرتا ہے۔ نقاد کو معلوم ہونا چاہئے  کہ وہ کس پہلو پر تنقید کر رہا ہے کیونکہ سماج بھی تنقید کو اسی تناظر میں دیکھتا ہے۔ تنقیدی شعور سے لوگوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ کسی موقف کو صحیح پرکھ سکیں اور ان پر اس کے مثبت پہلو واضح ہوں اور ساتھ منفی بھی۔ اس طرح تنقید ایک مثبت عمل بنتی اور معاشرے کو فکری سرمایے سے مالا مال کردیتی ہے۔ تنقیدی شعور سے مثبت مکالمے کا کلچرپیدا ہوتا ہے۔ مجادلہ ومناظرے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، جو تلاش حق سے زیادہ شخصی برتری کی منفی نفسیات کوفروغ دیتا ہے.​

کسی مضمون پر تنقید اصلاً ایک مثبت عمل ہوتا ہے۔اس کے نتیجے میں علم و دانش کے نئے دریچے کھلتے ہیں۔اگر کوئی بات مصنف کے سہو یا سوء فہم کے نتیجے میں غلط طور پر بیان ہو گئی ہوتو اس کا امکان ہوتا ہے کہ وہ تنقید کی روشنی میں اپنی تالیف پر نظر ثانی کرے گا۔ چنانچہ یہ بات بالکل بجا ہے کہ تنقید وہ زینہ ہے جس پر علم اپنے ارتقا کی منزلیں طے کرتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ علمی ارتقا کی خدمت کا فریضہ صرف اور صرف وہی تنقید انجام دیتی ہے جس میں مصنف کا نقطۂ نظر تعصب سے بالاتر ہو کر پوری دیانت داری سے سمجھا گیا ہو اور بے کم و کاست بیان کیا گیا ہو،جس میں مصنف کے محرکات طے کر کے انھیں ہدف تنقید بنانے کے بجاے اس کے استدلال کے نکات کو متعین کرکے ان پر تنقید کی گئی ہو، جس میں ضمنیات کو نمایاں کرکے ان پرمباحث لکھنے کے بجاے اساسات کو بنیاد بنا کر ان پر بحث کی گئی ہو اورجس میں الزام تراشی، دروغ گوئی اور دشنام طرازی کے بجاے سنجیدہ اور شایستہ اسلوب بیان میں اپنی بات سمجھائی گئی ہو.

ہمارے ہاں،علمی مذاکرے کے لیے ،فضا ساز گار نہیں ہے۔ علمی تنقید و تجزیہ،اختلاف کے بجائے،بالعموم، مخالفت پر محمول کیا جاتا ہے۔بطور خاص،وہ لوگ،جو کسی خاص فکر کے داعی ہوتے ہیں اور اسی حوالے سے،معاشرے میں ان کی ایک شناخت ہوتی ہے،ان کی طرف سے، اکثر و بیش تر، صحیح رویہ سامنے نہیں آتا۔وہ جو کچھ بھی کسی نقد واعتراض کے سلسلے میں،لکھتے یا کہتے ہیں،وہ محض ایک جوابی کارروائی ہوتی ہے۔ اسے،کسی طرح بھی ،علمی تنقید نہیں کہا جا سکتا،اس لیے کہ علمی تنقید کے کچھ مسلمہ اصول ہیں اور اس طرح کی تحریروں یا تقریروں میں یہ اصول کم ہی ملحوظ رکھے جاتے ہیں۔ جسے ہم علمی تنقید کا اصل الاصول قرار دے سکتے ہیں،وہ بھی اس سلسلے میں دیے گئے جوابات میں پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔ہونا تویہ چاہیے کہ مخاطب کے نقطۂ نظر کی اصل و فرع کومتعین کرنے کے بعد،پہلے اصل اور بعد میں فروع کو زیر بحث لایا جائے، اس لیے کہ ہر علمی نقطۂ نظر کسی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، لہٰذا، اگر بنیادی غلطی کی نشان دہی نہیں کی جائے گی تو فروع پر چلائے گئے تیشے کوئی حقیقی نتیجہ پیدا نہیں کر سکیں گے۔اور دوسری طرف اصل و بنیاد کو نظر انداز کر کے محض اجزا کو زیر بحث لانے سے یہ تاثر ہوتا ہے کہ جواب دیتے وقت اصل حقیقت سے گریز کر کے محض الجھاؤ پیدا کرنا مقصود ہے۔چنانچہ قارئین،بسا اوقات،یہ رائے قائم کر لیتے ہیں کہ تنقید کرنے والے کے پاس پیش آنے والے سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے۔

کسی اختلاف رائے کی صورت میں اگر ہم دوسرے کے نقطہ نظر پر تنقید کریں تو اس میں کچھ آداب کا بجا لانا عدل و انصاف اور علم و عقل کے مسلمات کی رو سے انتہائی ضروری ہے۔ منظور الحسن صاحب نے ان آداب کو اس طرح پیش کیا ہے۔

جس شخص پر تنقید کی جارہی ہو اس کا نقطہ نظر پوری دیانت داری سے سمجھا جائے۔

اگر اسے کہیں بیان کرنا مقصود ہو تو بے کم و کاست (یعنی بغیر کسی کمی یا اضافے کے) بیان کیا جائے۔

جس دائرے میں تنقید کی جارہی ہے، اپنی بات اسی دائرے تک محدود رکھی جائے۔

اگر کوئی الزام یا مقدمہ قائم کیا جائے تو وہ ہر لحاظ سے ثابت اور موکد ہو۔

مخاطب کی نیت پر حملہ نہ کیا جائے ، بلکہ استدلال تک محدود رہا جائے۔

بات کو اتفاق سے اختلاف کی طرف لے جایا جائے نہ کہ اختلاف سے اتفاق کی طرف۔

پیش نظر ابطال نہیں بلکہ اصلاح ہو۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹس آج کل سماج کی تخریب کا کام کر رہی ہیں۔ شدت پسندی اور بد اخلاقی ان پر عام ہے۔ جو سائٹ دیکھیں اسی پر ہمیں گالم گلوچ اور دشنام طرازی کی بھرمار نظر آتی ہے۔ ہر کوئی عقل کل بنا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی اور نظریاتی مخالفت برداشت کرنے کا حوصلہ ہی عدم ہو چکا ہے۔ بڑے بڑے نام جب اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی بڑائی زمیں پر آ رہتی ہے۔ چینلز پر بیٹھ کر درس دینے والے بزعم خود دانشور جب کبھی عیاں ہوتے ہیں تو ان کی ساری دانشوری کی پول کھل جاتی ہے.

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button