خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

حکومت نے جانی خیل کے کون کونسے مطالبات مان لیے؟

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبرپختونخوا حکومت اور مقامی مشران کے درمیان معاہدہ ہونے کے بعد ضلع بنوں میں جانی خیل کے مقام پر چار نوجوانوں کے قتل پر گذشتہ ایک ہفتے سے جاری دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

 مظاہرین اور حکومت کے امن معاہدے میں چار کمسن دوستوں کی قاتلوں کی گرفتاری، شفاف انکوائری اور حکومتی تحویل میں لئے گئے افراد کی تین ماہ کے اندر اندر جانچ پڑتال کے بعد بے گناہ افراد کو چھوڑا جائے گا۔

اس معاہدے کے بعد بنوں کے علاقہ ڈومیل پل لنک روڈ پر  پر جاری دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دھرنا شرکا سے اپنے اپنے علاقوں اور گھروں کو لوٹ جانے کا کہا گیا ہے۔

اس حوالے سے پیر کو بنوں میں وزیراعلی خیبرپختونخوا کے مشیر اطلاعات کامران بنگش نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ صوبائی حکومت نے جانی خیل قوم کے تمام مطالبات تسلیم کرلئے اور ان پر فوری عمل درآمد بھی کیا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت پہلے ہی دن سے جانی خیل قوم کے مشران کے ساتھ رابطے میں تھی اور ان کے تمام مطالبات تسلیم کرنے کا پہلے ہی دن سے اعلان کیا تھا لیکن ‘کچھ سیاسی عناصر دھرنا ختم نہ کرنے اور قوم کوتقسیم کرنے میں مصروف تھے’۔

دھرنے میں بیٹھے ریحان خان نے ٹی این این کو بتایا کہ گزشتہ رات چار بجے تک قومی مشران اور حکومت کے درمیان مذکرات جاری تھے جس کے بعد دونوں کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوا اور پیر کے صبح 11 بجے مظاہرین کے سامنے معاہدہ پڑھا گیا جس پر مظاہرین نے اتفاق کرکے دھرنے کو ختم کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ 9 دن سے جانی خیل سے دمی پل کے لنک روڈ پر اپنے چار میتوں کے ساتھ دھرنے میں  مصروف تھے لیکن معاہدے کے حمایت کے بعد وہ پرامن طور پر منتشر ہو رہے ہیں۔

معاہدہ کن نکات پر ہوا؟

معاہدے میں صوبائی حکومت نے جانی خیل عوام کو یقین دہانی کرائی کہ علاقے میں امن و امان کا قیام یقینی بنایا جائیگا، علاقے سے مسلح گروپوں کا خاتمہ کیا جائے گا جبکہ کسی بھی شخص کا گھر مسمار نہیں کیا جائیگا۔

حکومتی تحویل میں گرفتار افراد کی تین ماہ کے اندر جانچ پڑتال کی جائیگی اور بے گناہ افراد کو ترجیحی بنیادوں پر رہا اور گنہگاروں کو ریاست پاکستان کے مروجہ قوانین کے مطابق سزا دی جائیگی۔

جاں بحق افراد کے ورثا کو شہدا اور علاقے کی ترقی کیلئے خصوصی ترقیاتی پیکیج دیا جائے گا جبکہ مظاہرے کے دوران گرفتار افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے گا۔

معاہدہ کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ چار شہدا کے واقعے کی صاف اور شفاف انکوائری کی جائے گی اور واقعے میں ملوث مجرمان کو قرار واقعی سزا دی جائیگی۔

یاد رہے کہ 27 روز قبل جانی خیل سے تعلق رکھنے والے چار کمسن دوست شکار کیلئے نکلے تھے جس کے بعد وہ گھر واپس نہیں لوٹے اور رواں ماہ کے 21 تاریخ کو قریبی قبرستان سے اُنکی مسخ شدہ لاشیں ملی۔

تھانہ جانی خیل کی پولیس کا موقف

دمی لنک روڈ پر مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی سے قبل جانی خیل کے پولیس اہلکار سعید الرحمن نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 21 مارچ  کو مقتول احمد خان کے چچا عثمان خان ولد عظیم نے تھانہ اُتمانزئ میں پولیس کو بتایا کہ انہیں چار بچوں کی قتل ہونے اطلاع ملی، جب وہ گئے تو لاشوں کو زمین میں دفنایا گیا تھا جبکہ کچھ حصہ کتوں کی نوچنے کی وجہ سے باہر تھا۔

انہوں نے کہا کہ ‘انکا کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں ہے اسلئے معلوم نہیں کہ بچوں کو کس نے قتل کیا ہے، لہذا حکومت ملزمان کو گرفتار کرے۔”

پولیس کے مطابق مقتولین کی شناخت احمد خان ، عاطف اللہ، ارحام اللہ اور محمد رحیم کےناموں سے ہوئی ہے جن کی عمر 13 سے 17 سال تک بتائی جاتی ہیں۔

پولیس نے کہا کہ درج شدہ مقدمے میں نامعلوم افراد کے خلاف قتل اور اغوا برائے تاوان کے مقدمات شامل کئے گئے ہیں اور مقدمہ درج کرنے کے بعد پولیس نے واقعے کی تفتیش شروع کی ہے۔

مظاہرین پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس کیوں کی گئی تو اس سوال کے جواب میں سعید الرحمن نے کہا کہ "گزشتہ روز تھانہ جانی خیل کے حدود میں مظاہرین بے انتہا تعداد میں گزر رہے تھے جو پولیس کی قابو سے باہر تھے تو پولیس نے روکنے کیلئے آنسو گیس کا استعمال کیا”۔

پولیس نے مظاہرین سیدھی گولیاں برسانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ عوام کو کنٹرول اور علاقے میں خوف و ہراس کی روک تھام کی خاطر حکومت نے آج تک انٹرنیٹ اور موبائیل سگنلز بند کر دئے تھے۔

گزشتہ روز دھرنے میں عوامی نیشنل پارٹی کے بنوں سے سابقہ سینیٹر بازمحمد شرکا سے اظہار یکجہتی کیلئے گئے تھے، سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دکھایا جا رہا ہے کہ سامنے سے پولیس آنسو گیس کی شیلنگ کر رہے ہیں۔

بعد ازاں باز محمد خان نے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ جس مقصد کیلئے قوم نکلی ہے وہ مقصد پورا کرکے گھروں کو جائیں گے۔

دھرنے میں موجود ناصر خان نے ٹیلی فون کے ذریعے ٹی این این کو بتایا کہ جانی خیل میں تشدد کے واقعات معمول کا حصہ بن چکا ہے اور انکو درپیش مسائل کو کوئی نوٹس نہیں لیتا۔

انہوں نے کہا کہ "یہاں پر سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کی صورتحال اور بے گناہ لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنا اور انہیں غائب کرنا ہے”۔

یاد رہے کہ فروی میں شمالی وزیرستان میں ایک غیرسرکاری تنظیم کیلئے کام کرنے والے چار خواتین کو نامعلوم افراد نے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا جو علاقے میں خواتین کو سلائی کھڑائی کی ہنر سکھاتے تھیں۔

واقعے پر حکومت کا موقف

غیر ملکی نشریاتی ادارے بی یی سی نے بیان کو وزیراعلٰی خیبرپختونخوا محمود خان سے منسوب کرکے لکھا ہے کہ جانی خیل کو شرپسند عناصر سے پاک کرکے دم لیں گے، چاہے وہ گُڈ طالبان ہیں یا بیڈ طالبان، انکو نہیں چھوڑیں گے۔

وزیراعلٰی نے اپنے بیان میں جاں بحق افراد کی خاندانوں کیلئے فی کس 25 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا اور واقعے کی شفاف انکوائری کی یقین دہانی کروائی گئی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button