بصارت سے محروم ریحانہ گل کا پرومو ریکارڈنگ سے آر جے بننے تک کا سفر
سلمان یوسفزے
‘مجھے یاد ہے ایک دن میری دوست، جو ریڈیو میں کام کرتی ہے، نے بتایا کہ وہ بصارت سے محروم افراد کے حوالے سے ایک پرومو ریکارڈ کرنا چاہتی ہے اور میں اس سلسلے میں ان کی مدد کر سکتی ہوں، وہ مجھے اپنے ساتھ ریڈیو سٹیشن لے گئی اور جب پرومو ریکارڈ ہوا تو سب کو میری آواز بہت پسند آئی اور مجھے اپنے ساتھ کام پر لگا دیا۔’
یہ کہانی پشاور کے ایف ایم ریڈیو سٹیشن 92.2 پختونخوا میں کام کرنے والی پہلی نابینا آر جے ریحانہ گل کی ہے اور خصوصی طور پر عالمی یوم ریڈیو کے حوالے سے تیار کی گئی ہے۔
بینائی سے محروم ریحانہ گل اس صلاحیت کے نہ ہونے کے باوجود معاشرے میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں اور پچھلے کئی سالوں سے وہ ریڈٰیو پروگراموں کے ذریعے بصارت سے محروم افراد کی آواز بن رہی ہیں۔
ریحانہ گل کو بچپن سے ریڈیو سننے کا شوق تھا
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے 28 سالہ ریحانہ گل نے بتایا کہ وہ صوبے کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے معذور افراد کو اپنے ریڈیو پروگرام’ مشالونہ’ میں مدعو کرتی ہیں اور معاشرے میں خصوصی افراد کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ان کی درد بھری کہانیاں لوگوں کے لیے مثال بنا کر پیش کرتی ہیں۔
ریحانہ کے مطابق اسے بچپن سے ریڈٰیو سننے کا شوق تھا کیونکہ بصارت سے محروم افراد کے ساتھ صرف ایک ہی ذریعہ سننے کا ہوتا ہے اور روزمرہ کے زیادہ تر کام سننے کی مدد سے کرتے ہیں تو میں بھی جب فارغ ہوتی تھی تو زیادہ تر ریڈیو پروگرام سنتی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ ہی دنوں میں مجھے معذور افراد کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے پروگرام کرنے کا خیال آیا جس کی منظوری اسٹیشن ماسٹر نے بھی جلد ہی دے دی۔
‘میں جب ریڈیو پر پروگرام کرتی تھی تو شروع میں مجھے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ میں ایک پشتو پروگرام کی میزبان ہوں اور پروگرام کا سکرپٹ مجھے خود پشتو میں لکھنا پڑتا ہے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے پشتو لکھنا بھی سیکھ لیا۔’
ریحانہ کے مطابق پختونخوا ریڈیو میں وہ ایک فری لانسر کے طور پر کام کرتی ہیں اور انہیں فی پروگرام کا 8 سو روپے معاوضہ دیا جاتا ہے تاہم ٹیکس کٹوتی کہ وجہ سے انہیں معاشی مشکلات پیش آتی ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر حکومت انہیں اور بصارت سے محروم ان جیسے دیگر افراد کو مستقل نوکری دے تو ممکن ہے کہ مستقبل میں ان کی معاشی مشکلات حل ہو جائیں۔
ریحانہ گل کا ماننا ہے کہ بصارت سے محروم ہونا میرے لیے اب کسی چیز میں رکاوٹ نہیں ہے اور یہی سوچ میں ان لوگوں تک منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہوں جو میری بات سنتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں معذور افراد کو اُن کی صلاحیتوں سے روشناس کرانا چاہئے اور انہیں بتانا چاہئے کہ اس دنیا میں کوئی چیز بھی ناممکن نہیں ہے۔
ریحانہ گل کون ہیں؟
ریحانہ گل مردان کے علاقے شیر گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ وہ پیدائشی طور پر بصارت سے محروم تھیں، 6 برس کی عمر میں ان کے والدین علاج کی غرض سے انہیں روالپنڈی لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے ان کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ ریحانہ عمر بھر اس نعمت سے محروم رہیں گی لہذا انہیں شمس آباد کے علاقے میں قائم خصوصی بچوں کے اسکول میں داخل کروا دیا جائے۔
ریحانہ نے اس اسکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی، کالج سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ کریمینالوجی میں داخلہ لیا۔ ریحانہ مستقبل میں پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
ریحانہ کے مطابق ان کے 3 بھائی بھی بصارت سے محروم ہیں جن میں 2 بڑے بھائیوں کا انتقال ہو چکا ہے تاہم ریحانہ سے چھوٹا بھائی زندہ ہے۔
خیبرپختونخوا کی نسبت پنجاب میں خصوصی افراد زیادہ خودمختار ہیں؟
ٹی این این سے گفتگو کے دوران ریحانہ نے بتایا کہ زندگی کے 15 سال وہ پنجاب میں گزار چکی ہیں اس لئے انہیں معلوم ہے کہ وہاں معذور افراد زیادہ خود مختار ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر سمیت سرکاری محکموں میں خصوصی افراد کو نوکریاں ملتی ہیں تاہم خیبرپختونخوا میں زیادہ تر لوگ آگاہ نہیں ہیں اس لئے یہاں خصوصی افراد کو بہت کم نوکری کے مواقع میسر ہیں۔
عالمی یوم ریڈیو کے حوالے سے پیغام
ریحانہ گل کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے زیادہ تر علاقے انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں اس لئے دور دراز اور پسماندہ علاقوں کے لوگ (جن میں زیادہ تر گھریلو خواتین شامل ہیں) ریڈیو سنتے ہیں اور ریڈیو کے ذریعے معلومات ان تک پہنچتی ہیں۔
ریحانہ کے مطابق پختون معاشرے میں زیادہ تر خواتین کو موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اس لئے وہ زیادہ تر وقت ریڈیو ہی سنتی ہیں تاہم اگر ریڈیو کے ذریعے انہیں مفید پروگرام مہیا کیے جائیں تو وہ بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں اور معاشرے کی تعمیر اور ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
عالمی یوم ریڈیو کیوں منایا جاتا ہے؟
اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسکو کے مطابق 13 فروری کو ریڈیو کا دن منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے یونیسکو کے ممبر ممالک نے 2011 میں ریڈیو کا عالمی دن منانے کی قرار داد پیش کی تھی جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2012 میں بین الااقوامی دن کے طور پر اپنایا اور اس طرح 13 فروری عالمی یوم ریڈیو بن گیا۔ ریڈیو مختلف النوع معلومات فراہم کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ اور عالمی سطح پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا وسیلہ ہے۔ وسیع تر سامعین تک پہنچنے کی اس انوکھی صلاحیت کا مطب ہے کہ ریڈیو معاشرے کے تنوع میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔