”یونیورسٹی انتظامیہ کی توجہ مسائل کی بجائے طلباء کے لباس پر ہے”
سلمان یوسفزے
‘جہاں تک یونیورسٹی میں ڈریس کوڈ کو لازمی کرنے کی بات ہے تو بجائے اس کے کہ یونورسٹی انتظامیہ طلباء کو درپیش اصل مسائل جیسے کہ زیادہ فیس، رہائش کے لیے ہاسٹل اور وہاں ملنے والے کھانے کے معیار کا مسئلہ حل کرے ان کا دھیان طلباء کے لباس پر ہے۔’
یہ کہنا ہے باچا خان یونیورسٹی میں ایم فل سکالر افتخار احمد کا تاہم اسی یونیورسٹی کی ایک اور طالبہ ثمن حال ہی میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے دی گئی سفارشات کے حق میں ہیں اور کہتی ہیں کہ عبایا اور سکارف ہمارے دین اسلام کا ایک اہم حصہ ہیں جن کے ذریعے خواتین خود کو اچھی طرح سے ڈھانپ لیتی ہیں اور وہ نامحرم نظروں سے بچ سکتی ہیں۔
ثمن کے مطابق پشتون معاشرے میں پردہ کرنے والی خواتین کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور وہ سمجتھی ہیں کہ یونیورسٹی میں عبایا اور سکارف پہنے سے وہ جدید دور میں بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کریں گی۔
اس حوالے سے 26 جنوری کو چارسدہ میں واقع باچا خان یونیورسٹی کی اکیڈٹمک کونسل نے یونیورسٹی کے لئے خاص ڈریس کوڈ کے حوالے سے سفارشات مرتب کیں۔ نئے ڈریس کوڈ کے تحت طالبات کو ٹائٹ جینز اور شرٹس پہننے کی اجازت نہیں ہو گی۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں یونیورسٹی کے ترجمان حکیم مومند نے بتایا کہ یہ سفارشات گورنر خیبر پختونخوا کی ہدایات کی روشنی میں مرتب کی گئی ہیں اور اس کا حتمی فیصلہ سینیڈیکیٹ کے اجلاس میں کیا جائے گا۔
سفارشات کی روشنی میں طالبات کے لئے کالے رنگ کے ڈھیلے عبایا کے ساتھ سفید یا کالے رنگ کا سکارف یا سفید رنگ شلوار اور چادر کے ساتھ قمیص، کالے رنگ کے ہموار چپل پہننے اور یونیورسٹی کارڈ گلے میں آویزاں کرنا لازمی ہوں گے، ہر قسم کے جینز، ٹائٹس، ٹی شرٹس، ٹراوزرز، شارٹ شرٹس، میک اپ کرنے اور جیولری پہننے، فینسی پرس لانے، باریک لباس اور ہیلز پہننے پر پابندی عائد ہو گی۔
سمیع اللہ باچا خان یونیورسٹی میں بائیوٹکنالوجی کے طالبعلم ہیں اور وہ اس وجہ سے انتظامیہ کی شفارشات کے حق میں ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ نئے ڈریس کوڈ کا مقصد مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبا میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے تاکہ کم آمدنی والے گھرانوں سے آنے والے طلبا کسی احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔
تاہم سماجی کارکن وفا وزیر کے مطابق یونیورسٹیوں میں نئے ڈریس کوڈ متعارف کروانے سے طلبہ و طالبات ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں اور مستقبل میں ان کی فیصلہ کرنے کی اہلیت متاثر ہو سکتی ہے۔
وفا کہتی ہیں نئے ڈریس کوڈ کے سفارشات اگر پورے صوبے کی یونیورسٹیوں کیلئے مرتب کی گئی ہیں تو ٹھیک لیکن اگر کسی ایک یونیورسٹی میں نئے ڈریس کوڈ کو متعارف کروایا جا رہا ہے تو یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔
وفا نے بتایا کہ معاشرے میں پہلے ہی سے ہی مرودں کے مقابلے میں خواتین کی تعلیمی شرح کم ہے اور وہ پابندی کی زندگی گزاری رہی ہیں، اب اگر یونیورسٹی میں بھی ان پر پابندیاں لگا دی گئیں تو معاشرے میں تعلیم یافتہ خواتین کی شرح مزید کم ہونے کا اندیشہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی پابندیوں سے ہم مستقبل میں سامنے آنے والے ٹیلنٹ کو بھی ضائع کر سکتے ہیں کیونکہ اگر کوئی طالبہ کھیل کود کی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہتی ہے اور یونیورسٹی میں انہیں عبایا اور سکارف کے بغیر کھیلنے کی اجازت نہیں ملتی تو وہ مجبوراً اپنی صلاحتیوں کو ضائع کرے گی اور کھیل کی سرگرمیوں سے دور رہے گی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل مانسہرہ میں واقع ہزارہ یونیورسٹی کی اکیڈیمک کونسل نے بھی یونیورسٹی کے لیے خاص ڈریس کوڈ کے حوالے سے ایک نیا ضابطہ ترتیب دیا تھا جس پر طلبہ سمیت اساتذہ کو بھی عمل کرنے کی تاکید کی گئی تھی۔
یونیورسٹی کی جانب سے سامنے آنے والے نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ طالبات کو صرف مخصوص رنگ کے عبایا، دوپٹے اور سکارف پہننے جبکہ طلبہ کو صرف پینٹ شرٹ اور قمیض شلوار پہننے کی اجازت ہو گی۔
دوسری جانب یونیورسٹیوں کو ریگیولیٹ کرنے والے ادارے ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی ترجمان عائشہ اکرام کا کہنا ہے کہ ہر یونیورسٹی اس معاملے میں خود مختار ہے کہ وہ نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے اپنی مرضی کا ڈریس کوڈ اور دیگر قوائد بنائے۔
انہوں نے کہا کہ ایچ ای سی یونیورسٹیوں کو فنڈز فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی نصابی سرگرمیوں کو بھی ریگیولیٹ کرتا ہے اس کے علاوہ ہر یونیورسٹی خود مختار ہے اور وہ اپنی مرضی کا کوئی بھی ڈریس کوڈ لاگو کر سکتی ہے۔