‘کورونا کا شکار ہوا تو گاؤں میں یہ پروپیگنڈا تھا کہ رقم بٹورنے کے لئے ڈرامہ کر رہا ہوں’
سلمان یوسفزے
‘کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد میں بہت ڈر گیا تھا اور بار بار یہی خیال آ رہا تھا کہ شاید میری موت اسی وائرس سے لکھی گئی ہے لیکن اس سے زیادہ تکلیف دہ جو بات تھی وہ آس پاس کے لوگوں کا مشکوک رویہ تھا کیونکہ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ میں کورونا مریضوں کے لئے آنے والے فنڈ کو حاصل کرنے کے لئے دروغ گوئی سے کام لے رہا ہوں اور میرے خلاف یہ پروپیگنڈا کافی دور دور تک پھیل گیا تھا۔’
یہ کہانی ضلع بونیر نانسیر گاؤں سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ تاج ولی شاہ کی ہے جو پیشے کے لحاظ سے سرکاری پرائمری سکول کے استاد ہیں اور حال ہی میں کورونا وائرس سے لگنے والی بیماری سے صحتیاب ہو کر ہسپتال سے گھر جا چکے ہیں۔ ان کی کہانی انہی کی زبانی پیش خدمت ہے۔
”24 اپریل سے ہی میری طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی، بدن تیز بخار اور سخت درد سے نڈھال تھا، سوکھی کھانسی دن بہ دن بڑھ رہی تھی او بلڈ پریشر بار بار گر رہا تھا، ”جیسے تیسے کچھ دن گزار دیئے، اس دوران مقامی ڈاکٹر سے کچھ دوائیاں بھی لیں لیکن جب طبعیت ٹھیک ہونے کی بجائے مزید خرابی کی طرف گامزن ہوئی تو 3 مئی کو مردان میڈیکل کمپلکس سے احتیاطاً کورونا ٹیسٹ کروایا اور تین دن بعد خدشات کے عین مطابق میرا نتیجہ مثبت آ گیا۔
شروع میں مجھے سانس لینے میں کافی دشواری پیش آ رہی تھی اور ذہنی طور پر سخت مایوسی کا شکار ہو رہا تھا، میں نہیں جانتا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟ نیند کی کمی اور گھر والوں کی فکر میں، میں خود کو بھول گیا تھا اور کھانا پینا تک بھی چھوڑ دیا تھا۔ لوگوں کا رویہ بھی کافی چھبتا تھا کیونکہ نہ صرف میرے خلاف پراپیگنڈا کیا جا رہا تھا بلکہ بہت سے لوگوں نے رابطہ کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔
وہ لمحے کافی مشکل تھے جب میں پل پل اپنے بچوں کے لئے ترستا تھا، زندگی میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں اپنے بچوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاؤں، میں کیا کر سکتا تھا مجھے بیماری لگ چکی تھی اور یہ غم الگ سے کھائے جا رہا تھا کہ خدانخواستہ میرے گھر کے دیگر افراد اس وائرس کا شکار نہ ہو جائیں، میں تو خود یہ تکالیف برداشت کر لوں گا لیکن اپنی فیملی کو اس کرب میں دیکھنے کی مجھ میں شاید ہمت نہ ہو۔
میرے بعد میرے خاندان کے 18 افراد کو گھر میں ہی قرنطین کر دیا گیا جن میں میری بیوی، تین بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل تھے۔ ان تمام افراد کے ٹسٹ کرنے پر ان میں 4 افراد کے نتائج پازیٹو آ گئے تو ہم سب مزید ڈر گئے لیکن خوش قسمتی سے وہ چاروں افراد علامات ظاہر ہوئے بغیر ہی ٹھیک ہو گئے اور ہفتے بعد ان کے دوسرے ٹسٹ منفی آ گئے۔
ہسپتال میں میرے پہلے 4 دن اس قدر مشکل تھے کہ میں بیان نہیں کر سکتا، دوسرے ہی دن سانس میں دشواری کی وجہ سے مجھے آئی سی یو منتقل کر دیا گیا اور باقاعدہ طور نیبولائزر اور آکسیجن کی سہولیات فراہم کر دی گئیں۔ چار دن بعد جب طبعیت تھوڑی سنبھل گئی تو مجھے آئسولیشن وارڈ منتقل کر دیا گیا لیکن پھر بھی میں کھانے پینے سے قاصر تھا اور صرف بدن کی ضرورت پوری کرنے کے لئے تھوڑا سا کھانا کھاتا تھا حالانکہ ڈاکٹر مجھے بار بار اچھا کھانا کھانے کی ترغیب دیتے تھے لیکن 11 دن بعد ہی میں اس قابل ہو گیا کہ جی بھر کر کھا سکوں اور چھین کا سانس لے سکوں۔ اس عرصے میں، میں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا تھا، جب جب سانس لینے میں دشواری ہوتی تھی تو ایسا لگتا تھا جیسے میں مرنے لگا ہوں اور یہ لمحے مجھ پر قیامت جیسے گزر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:
کورونا وباء، ایچ ایم سی کے آئی سی یو میں جگہ ختم
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں داخلہ بند، مقامی مریضوں کا کیا بنے گا؟
‘کورونا وائرس کا شکار ہونے سے پہلے میں اس کو افواہ سمجھتا تھا لیکن اب نہیں’
نہیں معلوم کیسے میں کورونا وائرس کا شکار ہوا تھا کیونکہ وباء کے ایام میں، میں اپنے علاقے سے کہیں باہر بھی نہیں گیا تھا اور کسی ایسے شخص سے بھی ملاقات نہیں کی تھی جو پہلے سے کورونا وائرس کا شکار ہو۔ جب میں کورونا وائرس کا شکار ہوا تو اس وقت تمام ضلع بونیرمیں بہت ہی کم افراد اس وائرس سے متاثر تھے۔
آئسولیشن وارڈ میں 11 دن گزرنے کے بعد مجھے 13 مئی کو عبدالولی خان یونیورسٹی گارڈن کیمپس کے قرنطینہ سنٹر منتقل کر دیا گیا لیکن اس سے پہلے جو 12 مئی کو دوبارہ ٹٰیسٹ کے لئے نمونے لئے گئے تھے اس کے رزلٹ کے لئے میں نے ایک ہفتہ انتظار کیا۔ اس دوران میں چونکہ میری طبیعت سنبھل گئی تھی تو مجھے پورا بھروسہ تھا کہ رزلٹ منفی آئے گا لیکن پھر بھی انتظار نہیں ہو پا رہا تھا۔
20 مئی کو ریزلٹ آیا تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کیونکہ ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ میرے بدن میں نہ تو بخار تھا اور نہ ہی گذشتہ والی علامات تو اس صورتحال میں میرا ٹیسٹ دوبارہ کیسے پازیٹو آ سکتا تھا، یہ میرا دل نہیں مان رہا تھا۔ جو تھوڑی بہت خوشی دل میں تھی وہ دوبارہ گم ہو گئی اور ایک بار پھر مجھے سخت مایوسی نے گھیر لیا۔ دن رات یہی سوچ کہ کب دوبارہ اپنے بیوی بچوں، ماں باپ اور دیگر گھر والوں سے ملوں گا، کب زندگی دوبارہ پہلے جیسے ہو گی۔
اس دوران گھر والے بھی سخت پریشان تھے اور میری طرح میرے بچے بھی مجھ سے ملنے کے لئے ترس رہے تھے۔ روزانہ گھنٹوں گھنٹوں ماں، باپ اور بیوی بچوں سے موبائل پر باتیں کرتا تھا، دوست احباب کے بھی کالز آ رہے تھے لیکن وہ بہت کم ہی وصول کرتا تھا کیونکہ کسی اور سے بات کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔
اس دوران مردان سے مجھے بونیر کے ڈگر قرنطینہ سنٹر منتقل کردیا گیا، یہاں بھی جیسے تیسے 3 دن گزار لئے اور ایک بار پھر میرے نمونے ٹیسٹ کے لئے بھیجے گئے اور 31 مئی کو نتیجہ منفی آنے پر مجھے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے گھر جانے کا پروانہ مل گیا۔ لیکن ڈاکٹروں کی جانب سے مجھے سختی سے ہدایات دی گئیں کہ گھر میں مزید ایک ہفتے تک خود کو دوسرے لوگوں سے الگ رکھوں اور کسی سے نہ ملوں۔ اس پر بھی دل کافی افسردہ تھا لیکن ایک خوشی تھی کہ جیسے بھی ہو گھر میں تو رہوں گا، اپنے بچوں سے مل نہ سکوں لیکن انہیں دیکھ تو سکوں گا۔
جب گھر لوٹ آیا تو یقین ہو گیا کہ اب صحتیاب ہو گیا ہوں کیونکہ اب میں کسی وارڈ میں نہیں تھا بلکہ اپنے گھر کے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ گھر میں بھی ایسی کیفیت تھی جیسے کوئی مسافر بڑے عرصے بعد لوٹ آیا ہو۔ میں اپنے بچوں کو چھو نہیں رہا تھا لیکن میرے قریب بیٹھے ہوئے تھے بس یہی میرے لئے کافی تھا۔
میں 7 دن کی خود ساختہ تنہائی گزارنے کے بعد اچھی طرح سے نہا دھو کر باہر نکلا تو کافی کمزوری محسوس کر رہا تھا لیکن پھر بھی دن بھر بچوں کے ساتھ خوب وقت گزارا، ان کے ساتھ کھیل کود میں حصہ لیا اور نئی زندگی ملنے پر اپنے رب کا شکر ادا کیا۔
کووڈ-19 سے صحتیابی کے دو ہفتے گزرنے کے بعد بھی میری تیمارداری کے ساتھ ساتھ مبارک باد دینے کے لئے آنے والوں مہمانوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور میں ہر ایک سے یہی کہتا رہتا ہوں کہ خدارا اس بیماری کو مذاق نہ سمجھیں اور احتیاط کیا کریں۔”