خیبر پختونخوا

کورونا وائرس، کیا پشاور ووہان، لومبارڈی یا نیویارک سٹی بننے جا رہا ہے؟

افتخار خان

خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاور کورونا وائرس سے اموات کے لحاظ سے ملک کا بدترین شہر بن گیا ہے جہاں صوبے کی 60 فیصد جبکہ ملک بھر کی 22 فیصد اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔

ملک بھر میں اب تک کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 32،081 تک تو ملک بھر میں 706 افراد اس کا شکار ہو کر جاں بحق ہوئے ہیں جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں گزشتہ روز 12 نئی اموات کے ساتھ اس وائرس سے لقمہ اجل بننے والوں کی مجموعی تعداد 257 ہو گئی ہے۔

اعداد و شمار پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ملک بھر میں کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والوں کا تناسب 2 فیصد سے تھوڑا اوپر ہے لیکن اگر خیبر پختونخوا کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو صوبہ بھر میں 100 مریضوں میں سے 5 موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ صوبے میں پھر پشاور کی صورتحال سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا ہے جہاں پر اموات کا تناسب 7 فیصد سے بھی اوپر ہے۔

صوبے میں پشاور کی صورتحال

خیبر پختونخوا میں مثبت کیسز کے حوالے سے بھی پشاور 1918 کیسز کے ساتھ سرفہرست، 366 مثبت کیسز کے ساتھ سوات دوسرے جبکہ مردان 273 کیسز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

خیبر پختونخوا میں اب تک سامنے آنے والے کورونا کیسز میں 40 فیصد پشاور سے ہیں جبکہ اموات میں بھی صوبائی دارالحکومت کا حصہ 60 فیصد ہے، صوبہ بھر میں کورونا وائرس سے کل 257 اموات ریکارڈ ہوئیں جن میں 155 پشاور سے ہیں۔

ملک بھر میں پشاور کی صورتحال

ملک بھر میں ابھی تک کورونا وائرس سے 705 اموات ریکارڈ ہوئی ہیں جن میں حیران کن طور پر 22 فیصد صرف پشاور ضلع سے ہیں جہاں کل اموات کی تعداد 155 تک پہنچ گئی ہے۔

پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ کورونا کیسز ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سے رپورٹ ہوئے ہیں جن کی تعداد 9082 ہے جبکہ لاہور 4637 کیسز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔

ان دونوں شہروں کی آبادی بھی ملک کی مجموعی آبادی کا بالترتیب 7 اعشاریہ 5 اور 5 اعشاریہ 5 فیصد ہے لیکن حیران کن طور پر تیسرا زیادہ متاثرہ شہر پشاور ہے جہاں پر ملک کے مجموعی کیسز کے 6 فیصد کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ اس ضلع کی آبادی کا تناسب کل آبادی کا صرف 2 فیصد ہے۔

خیبرپختونخوا اور بالخصوص پشاور میں کورونا کے مثبت کیسز اور اموات کا تناسب زیادہ کیوں ہے؟

اس حوالے سے صوبائی وزیرصحت تیمور سلیم جھگڑا کہتے ہیں کہ صوبے میں اموات کا زیادہ تناسب شائد اس وجہ سے ہو کہ یہاں وائرس زیادہ پھیل گیا ہو۔

صوبائی وزیر دلیل میں کہتے ہیں کہ پچھلے چند مہینوں کے دوران ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں خیبر پختونخوا کو باہر ممالک سے زیادہ مسافر واپس آئے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ لوگ اپنے ساتھ یہ وائرس لائے ہوں اور غیردانستہ  طور پر یہاں پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہوں۔

صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ کے ڈاکٹر گلاب نور بھی تیمور سلیم جھگڑا کی اس دلیل سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وباء پھیلنے کے بعد 4 سے 5 لاکھ مسافر باہر ممالک اور بالخصوص خلیج ممالک سے خیبر پختونخوا آئے ہیں۔

ٹی این این سے اس حوالے سے بات چیت کے دوران ڈاکٹر گلاب نور نے وائرس کے پھیلاؤ کے چند دیگر اسباب بھی بیان کئے اور کہا کہ ان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی غفلت سرفہرست ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین میں وباء پھیلنے کے بعد یہاں حکومت کو سنجیدگی سے کوئی لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے تھا لیکن ایسا لگتا ہے حکومت نے صرف بیانات کی حد تک تیاری کر رکھی تھی۔

حکومت کو اس معاملے میں سیاست کرنے کی بجائے سینئر ڈاکٹروں کی ایک کمیٹی بنانی چاہئے تھی اور اسی کے مشوروں پر لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے تھا لیکن وہ بجائے ڈاکٹروں سے مشورے لینے کے انہی کی جانوں کے پیچھے لگ گئی، 4 مہینے گزرنے کے باوجود کسی بھی ہسپتال کو عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق پی پی ایز یعنی حفاظتی سامان مہیا نہ کیا جا سکا جس کی وجہ سے آئے روز ڈاکٹرز او دیگر صحت کا عملہ خود اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔

پشاور میں زیادہ کیسز اور اموات کے حوالے سے ڈاکٹر گلاب نور نے کہا کہ سب سے بڑی وجہ تو اس شہر کا میٹرو پولیٹن ہونا ہے، آبادی بہت زیادہ ہے، بازاروں، مساجد، منڈیوں، بس اور ریلوے سٹیشنز وغیرہ پر رش بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس لئے یہاں یہ وائرس زیادہ پھیل گیا ہے، عوام بھی علامات ظاہر ہونے کے باوجود ٹسٹ نہیں کرتے اور وائرس کو پھیلاتے جاتے ہیں۔

دیگر وجوہات میں انہوں نے یہ امکان بھی ظاہر کیا کہ چونکہ صوبے کے دیگر اضلاع سے مریض پشاور لائے جاتے ہیں اور حکومت کی جانب سے ان مریضوں کی ٹریسنگ اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کا ابھی تک ایسا کوئی کارآمد نظام بھی نہیں بنایا گیا ہے تو دوسرے اضلاع کے مریض اور اموات بھی پشاور ہی کے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہیں۔

ڈاکٹر گلاب نور نے کہا کہ پشاور میں وائرس کے پھیلاؤ میں ہسپتالوں کا بھی بڑا کردار ہو سکتا ہے جہاں پر لوگ بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے آتے جاتے ہیں جن میں کورونا سے متاثرہ مریض نہ صرف دوسرے مریضوں بلکہ ہسپتال کے عملے کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ڈاکٹر کے مطابق صوبے اور بالخصوص صوبائی دارالحکومت میں وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کے پیش نظر صوبائی حکومت کو چند دن کے لئے مکمل لاک ڈاؤن سمیت چند سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔

انہوں نے صوبائی حکومت کو مشورہ دیا کہ پشاور کے 2 یا 3 بڑے نجی ہسپتالوں جیسے کہ رحمان میڈیکل کمپلکس، نارتھ ویسٹ اور شوکت خانم ہسپتال کو کچھ عرصے کے لئے نیشنلائز کریں اور انہیں کورونا مریضوں کے لئے مختص کریں جس سے نہ صرف مریضوں کو علاج کی اچھی سہولتیں میسر ہوں گی بلکہ ہسپتالوں میں رش کی کمی سے وائرس کی روک تھام میں بھی مدد ملے گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button