پشاور کی سائرہ مفتی، بنی ہے بے سہارا روحوں کا سہارا
خالدہ نیاز
پاکستان میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد جہاں طبی عملہ اپنی جانوں کی پراوہ کیے بغیر لوگوں کے علاج معالجے میں مصروف ہیں وہیں پر سماجی ورکرز بھی لوگوں کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ سماجی ورکرز کہیں پہ لوگوں میں مفت سینیٹائرز اور ماسک تقسیم کررہے ہیں تو کہیں پہ ایسے افراد میں راشن بھی بانٹ رہے ہیں جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے مزدوری نہیں کرسکتے اور گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔
انہیں افراد میں سے پشاور سے تعلق رکھنے والی سائرہ مفتی اور انکی ٹیم بھی شامل ہیں جو کورونا وائرس سے متاثرہ ایسے خاندانوں میں راشن تقسیم کررہے ہیں جو ضرورت مند ہیں اور نہیں کرسکتے کہ ایسے حالات میں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران سائرہ مفتی نے بتایا کہ انکا ادارہ اسسٹنگ ڈسٹیوٹ سولز (یعنی بے سہارا روحوں کی امداد کرنا) اب تک 100 سے زائد خاندانوں میں مفت راشن تقسیم کرچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ مخیر حضرات سے چندہ جمع کرکے اپنے ادارے کو چلا رہی ہیں اور اب تک انہوں نے کئی لوگوں کی مدد کی ہے۔
سائرہ مفتی نے بتایا ان کا ادارہ کورونا وائرس سے پہلے بھی غریب، نادار اور ضرورت مند افراد کی مدد کررہا تھا تاہم وائرس پھیلنے کے بعد ان کو احساس ہوا کہ اب لوگوں کو سب سے زیادہ ضرورت راشن کی ہے تو اس کے بعد انہوں نے اپنی ساری توجہ اس طرف مرکوز کردی۔
انہیں سوشل ورک کا خیال کیسے آیا اس حوالے سے سائرہ مفتی نے بتایا’ مجھے یونیورسٹی کے دنوں سے ہی سوشل ورک کا شوق تھا اور میں اکثر مستحق طلباء کے لیے چندہ جمع کرتی تھی جس سے کسی کا فیس دے دیتی تھی یا پھر اس کا کوئی اور مسئلہ حل کرتی تھی، اکثر راستے میں آتے جاتے ہوئے بھی جب میں غریب اور ضرورت مند لوگوں کو دیکھتی تھی تو میرا دل کرتا تھا کہ کاش میں ان لوگوں کے لیے کچھ کرسکوں اور پھر ایک دن دوستوں کے ساتھ مل کرہم نے فیصلہ کیا کہ کام تو ہم ویسے بھی کررہے ہیں تو کیوں نہ اسکے لیے باقاعدہ ایک ادارہ رجسٹرڈ کروائے اور پھر اس کے ذریعے لوگوں کی مدد کریں’
سائرہ مفتی نے بتایا کہ انہوں نے چار پانچ ماہ قبل سے ہی اپنا باقاعدہ کام شروع کیا ہے اور انکے ساتھ ٹیم میں 10 لوگ ہیں جن میں 7 بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ شروع میں جب کام کا آغاز کیا تو اس وقت سردی ہوت تھی تو انہوں نے گلیوں میں بیٹھنے والے لوگوں کے لیے گرم کپڑے اور سویٹر لینا شروع کیے اور اس طرح اگر کسی کے جہیز کا مسئلہ ہوتا تھا تو اس کے جہیز کے لیے پیسے اکٹھے کرتے تھے، کسی کی دوائیاں نہیں ہوتی تھی تو ان کے لیے دوائیاں خریدتے تھے اور یوں کام چلتا رہا۔
سائرہ مفتی نے کہا کہ اگرچہ شروع ہی سے ان کو سوشل ورک کا شوق تھا اور وہ چاہتی تھی کہ جس طرح انکی اپنی خواہشات پوری ہورہی ہے بالکل اسطرح غریب اور نادار لوگوں کی بھی پوری ہو لیکن کچھ لوگوں نے ان کا حوصلہ ہمیشہ پست کیا کہ یہ بہت مشکل کام ہے نہیں کرپاوں گی جس کی وجہ سے وہ کچھ وقت کے لیے یہ خیال دل سے نکال دیتی تھی لیکن پھر جب راستے میں کسی کو دیکھتی تو ان کے دل میں سوشل ورک کا جذبہ بیدار ہوتا اور ایک دن انہوں نے ہمت کرکے شروعات کرہی دی جس کے بعد گھروالوں اور دوستوں نے بھی سپورٹ کیا اور اب وہ کام کررہے ہیں۔
ان کو پیسے کہاں سے اور کیسے ملتے ہیں اس حوالے انہوں نے کہا کہ جب بھی کسی کو ضرورت ہوتی ہے تو وہ سوشل میڈیا پیجز اور وٹس ایپ گروپس میں مسیجز چھوڑ دیتے ہیں اور مخیر حضرات ان کو پیسے دے دیتے ہیں جس کے بعد وہ ان پیسوں سے ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا وہ پانچ افراد کو وہیل چیئرز فراہم کرچکے ہیں اس کے ساتھ ساتھ معذور افراد اور اقلیتی برادری کی لوگوں کو بھی راشن فراہم کرچکے ہیں اور اب ان کا ارادہ ہے خواجہ سراوں کی بھی مدد کریں کیونکہ لاک ڈاون کی وجہ سے انہیں بھی کافی مشکلات کا سامنا ہے۔
صحافی عمرفاروق بھی سائرہ مفتی کے ٹیم ممبرہے۔ ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران عمر فاروق نے بتایا کہ ان کا ارادہ فی الحال پشاور تک محدود ہے لیکن انکی کوشش ہوگی کہ حالات بہتر ہونے کے بعد وہ اس کا دائرہ کار باقی اضلاع تک بھی بڑھائیں۔
عمر فاروق نے کہا کہ شروع میں سب دوست انفرادی طور پرکام کررہے تھے جس کے بعد سائرہ مفتی نے کہا کہ کیوں نہ سب اکٹھے ہوجائے اور ایک ادارہ بنائے اور لوگوں کی مدد کریں جس کے بعد انہوں نے ادارے کی رجسٹریشن کا عمل بھی شروع کیا لیکن لاک ڈاون کی وجہ سے ابھی تک ان کا ادارہ رجسٹرڈ نہیں ہوسکا۔
عمر فاروق نے بتایا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پررپورٹنگ کے لیے نکلتے ہیں اور جب سے سوشل ورک کا کام شروع کیا ہے تو نکلتے وقت ایک راشن بیگ بھی اٹھالیتے ہیں اور وہ فرائض کے ساتھ ساتھ وہ اپنا سماجی کام بھی جاری رکھے ہوئے جس سے ان کو بہت سکون ملنے لگا ہے کیونکہ لوگوں کی خدمت میں عظمت ہے۔