ٹیلی سکول حکومت کی اچھی کاوش مگر؟
خالدہ نیاز
دسویں کلاس کی طالبہ چشمان بیٹھی تو ٹیلی ویژن کے سامنے ہیں لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ وہ کلاس روم میں ہیں، ہاتھوں میں قلم اور کاپی لئے پورے انہماک سے ٹیلی ویژن کو دیکھ اور سن رہی ہیں اور تیزی کے ساتھ نوٹس بھی لکھ رہی ہے۔ چشمان دراصل ٹیلی سکول کی کلاس لے رہی ہیں جو لاک ڈاؤن کے پیش نظر تعلیمی اداروں کی بندش پر حکومت نے شروع کیئے ہیں۔
ٹیلی سکول وزارتِ تعلیم اور وزارت اطلاعات کے اشراک سے شروع کیا گیاہے اور ٹیلی سکول میں پہلی جماعت سے 12ویں جماعت تک کی کلاسز صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک ہوتی ہیں۔
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول قصاب خانہ ضلع پشاور کی دسویں جماعت کی طالبہ چشمان نے حکومت کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیلی سکول سے ان کو بہت فائدہ پہنچ رہا ہے کیونکہ وہ گھربیٹھے علم کے نور سے منور ہورہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیلی سکول پرپڑھانے والے اساتذہ کے پڑھانے کا انداز بہت اچھا ہے اور وہ بہت شوق سے ٹی وی کے آگے پڑھنے کے لیے بیٹھی ہوتی ہیں۔
دوسری جانب اسی سکول کی دسویں جماعت کی طالبہ نورالامین کا اس حوالے سے کہنا ہے ‘ اگرچہ ٹیلی سکول حکومت کی اچھی کاوش ہے تاہم اس سے وہ اس طرح سے تعلیم حاصل نہیں کرپارہی جس طرح سکول جاکر حاصل کرتی ہیں کیونکہ ٹیلی سکول کے دوران طلبا کی نگرانی ممکن نہیں ہے نہ ہی طلبا سوالات کرسکتے ہیں اور نہ ہی زیادہ دیر تک توجہ دے سکتے ہیں’
گورنمنٹ گرلز مڈل سکول نیامی ضلع پشاور کی استانی فلک ناز نے بھی حکومت کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ سکول کھلنے کے بعد اس ٹیلی سکول کو جاری رکھنا چاہئے کیونکہ اس سے طلباء کو بہت کچھ سکیھنے کو ملتا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ بعض دیہی علاقوں میں کچھ طلباء کے گھر ٹی وی کی سہولت نہیں ہے تو حکومت کو چاہیئے کہ اس سکول کو ریڈیو سے بھی نشر کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ طلباء اس سے مستفید ہوسکے۔
قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے طلباء کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ انہوں نے اس ٹیلی سکول کے بارے میں سنا ضرور ہے تاہم ان سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔
ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے ایف ایس سی کے طالبعلم امجد علی نے ٹی این این کو بتایا’ یہاں ہر وقت بجلی نہیں ہوتی اس کے ساتھ ساتھ لوگ غریب ہیں اور زیادہ تر لوگوں کے گھروں میں ٹی وی نہیں ہے، موبائل اگر ہے بھی تو تھری جی فور جی کام نہیں کرتا تو اس سے قبائلی طلباء بالکل بھی فائدہ نہیں اٹھاسکتے’
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قبائلی طلباء کے لیے اپنے علاقے میں تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کا کوئی انتظام کرے کہ ان کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے اور وہ چاہ کربھی ٹیلی سکول سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
ایک دوسرے قبائلی طالبعلم محمد نے بتایا کہ حکومت نے ٹیلی سکول تو شروع کردیا ہے لیکن ان کے علاقے میں بجلی اور ٹی وی کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے طالبعلم یونہی پھر رہے ہیں اور ان کا وقت ضائع ہورہا ہے۔
واضح رہے کہ ٹیلی سکول وزارتِ تعلیم اور وزارت اطلاعات کے اشراک سے شروع کیا گیاہے اور ٹیلی سکول میں پہلی جماعت سے 12ویں جماعت تک کی کلاسز صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک ہوتی ہیں۔
دوسری طرف گورنمنٹ گرلز ہائی سکول اعجاز آباد ضلع پشاور کی استانی ہادیہ نے بھی ٹیلی سکول کو بہترین قرار دیا ہے کہ اس سے طلباء کا قیمتی وقت ضائع سے بچ جائے گا البتہ اب یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو یہی چینل لگاکے دیں اور ان کو بٹھائے کہ وہ کچھ سکیھ سکیں۔
یاد رہے کہ حکومت نے کورونا وائرس کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے بچوں کا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے لیے ٹیلی سکول کا آغاز 13 اپریل کو کیا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پورے ملک میں باقی اداروں سمیت تعلیمی ادارے بھی 31 مئی تک بند کردیئے گئے ہیں۔