’80 ہزار کا مویشی 4 یا 5 ہزار میں قصاب کے ہاتھوں فروخت کر دیتے تھے’
ناہید جہانگیر
‘گاوں میں ویٹرنری سنٹراور زیادہ آگاہی نا ہونے کی وجہ سے لوگ مال مویشی کا علاج کرنے کی بجائے انکا حل ذبح کرنے میں ڈھونڈتے تھے، ضلع کوہاٹ کے دور دراز علاقے درملک میں کوئی بھی وٹرنری سنٹر نہیں تھا تو ایمرجنسی کی صورت میں اپنے مویشیوں کو لاچی یا کوہاٹ نہیں لے جا سکتے تھےاور اکثر اوقات مویشی کی حالت زیادہ بگڑنے کی صورت میں اس کو ذبح کرنے کی نوبت آتی اور 60 یا 80 ہزار کی مویشی 4 یا 5 ہزار میں قصاب کے ہاتھوں فروخت کردیتے تھے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کا کافی نقصان ہوجاتا کیونکہ درملک کے لوگوں کا زیادہ تر دارومدار مال مویشیوں پر ہی ہے۔
ساری زندگی مال مویشیوں کے پالنے میں گزر گئی اور اب اس طرح مانوس ہو گئے ہیں کہ جب ان کو تکلیف ہوتی ہے تو اسی طرح بے چینی ہوتی ہے جیسے کوئی اپنا بچہ بیماری یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔’ درملک کے رہائشی محمد طاہر محمود نے کہا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس تقریباً 20 کے قریب بڑے جانور ہیں جبکہ 35 تک بکرے بکریاں ہیں۔ دن کے وقت اگر کوئی مویشی بیمار ہو جائے تو آسانی کے ساتھ لاچی یا کوہاٹ وٹرنری ہسپتال لے جاتے لیکن اگر آدھی رات کو کوئی مسئلہ ہوجاتا تو پھر اس وقت گاڑی کا ملنا بہت مشکل ہوتا ۔
محمد طاہر نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ صرف ان کو نہیں بلکہ درملک کے تمام لوگوں کا ہے اور سب کا واحد ذریعہ معاش بھی یہی مویشی ہیں، سب گھر کا خرچہ اسی سے چلاتے ہیں۔
محمد طاہر نے حکومت اور ضلعی معتلقہ انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ ان کے علاقے میں لائیو سٹاک کی جانب سے سال میں 1 یا 2 کیمپ تو لگائے جاتے ہیں لیکن بروقت علاج نہیں ہو سکتا کیونکہ یہاں کوئی وٹرنری سنٹر ہے ہی نہیں تو ان کے علاقے میں بھی ایک سنٹر یا ڈسپنسری قائم کی جائے تاکہ مال مویشیوں کا وقت پر علاج ہو سکے۔
ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر لائیو سٹاک ڈاکٹر شاہوارانور نے اس مسئلے کی نشاندہی پر کہا کہ ہسپتال یا ڈسپنسری کو قائم کرنا ایک صوبائی مسلہ ہے اور انکے ہاتھ میں اتنے اختیارات نہیں کہ وہ کسی علاقے میں ویٹرنری سنٹر بنائے ، جب بھی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کوئی بھی سالانہ ترقیاتی سکیم کا اعلان کریں تو اس کے تحت ہوسکتا ہےیا اگر اس علاقہ کا ایم پی اے اس مسلے کو اٹھائے تو پھرایم پی اے ڈائریکٹر جنرل کے سامنے یہ مسلہ پیش کریں گا۔ ڈاکٹر شاہوار کے مطابق ڈی جی کی طرف سےانکے پاس یہ رپورٹ یا درخواست آئے گی کہ فیسیبلٹی رپورٹ بنائی جائے یہاں سے وہ ایک ٹیم کے زریعے علاقہ کا سروے کیا جائے گا، یہ رپورٹ واپس ڈی جی کے پاس جائے گی تو پھر کوئی ہسپتال یا سنٹرآسانی سے بن سکتا ہے۔
ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر لائیو سٹاک ڈاکٹر شاہوارانور نے بجٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کا کوئی مسلہ نہیں ہے صرف اس بتائے گئے مراحل سے گزرنا لازمی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ مہینے پہلےعمر اصغر خان فاونڈیشن کی ٹیم اورقریشی ویلفئرآرگنازیشن ادارے کے عبدالناصر جمال ان کے دفترآئے تھے اور ان کی درخواست پر میں نے اینیشیٹیو لیا تھا اور7 یا 8 مہینے پہلے درملک میں 3 دن کے لئے کیمپ کا انعقاد اور وہاں کے مقامی لوگوں کے جتنے بھی مال مویشی تھے ان کا علاج کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر شاہوار انور کے مطابق اس سال تقریباً روٹین کی ڈیوٹی کے علاوہ 3 وٹرنری کیمپ درملک میں لگائے گئے ہیں جن میں مویشیوں کو ویکسین دینے کے علاوہ ان کا ضروری علاج معالجہ بھی کیا گیا، درملک کے ساتھ نزدیک لاچی ڈسپنسری، سورگل اور مندوری سنٹرز ہیں جہاں سے سٹاف کو درملک میں کیمپ لگانے کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔
درملک کے مقامی لوگوں کے اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے سماجی کارکن عبدالناصر جمال نے بتایا کہ ان کے علاقے میں زیادہ تر آبادی کا دارومداراور زریعہ معاش مال مویشیوں پر ہے، لیکن ان میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے زیادہ آگاہی بھی نہیں کہ وہ کس طرح ان کی درست دیکھ بال کر سکتے ہیں، زیادہ آگاہی نہ ہونے کی وجہ ہرسال یہاں کے مقامی لوگوں کے اکثر مال مویشی مرجاتے ہیں۔
عبدالناصر جمال نے کہا کہ پہلے درملک لائیو سٹاک کی جانب سے ایک ٹیکنیشن آتا تھا جو یہاں کے لوگوں کے مال مویشیوں کا معائنہ کرتا تھا، وہ ٹیکنیشن گاؤں کی یونین کونسل افسر کے دفتر میں بیٹھ کر پورے گاؤں کے مال مویشیوں کا علاج معالجہ کرتا اور یہ سب ایک پروجیکٹ کے تحت کرتا لیکن جونہی وہ پروجیکٹ ختم ہوا یہ سلسلہ بھی وہیں ختم ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اسی بات کو لے کر عمر آصغر خان فاونڈیشن ٹیم کے ساتھ اس مسئلے پر بات چیت کی تو اس کی ٹیم اور وہ خود لائیو سٹاک محکمہ کوہاٹ گئے اور ڈاکٹر شاہوار کے ساتھ ملاقات کی اور ان کو گاؤں کے مویشیوں کی بیماریوں کے حوالے سے بتایا۔
انہوں کہا کہ ڈاکٹر شاہوار کی مدد سے قابل عملہ جس میں ڈاکٹرز اور ٹیکنیشن شامل تھے تمام ضروری ادویات سمیت ان کے گاؤں بھیجا گیا جہاں انہوں نے کیمپ لگایا جس میں مویشیوں کو ویکسین کے علاوہ ان کا دیگر علاج بھی کیا گیا۔
‘اب جب بھی ضرورت ہوتی ہے 1 یا 2 مہینے بعد کیمپ لگایا جاتا ہے، اس میڈیکل کیمپ کا بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ یہاں کے مقامی لوگوں میں آگاہی آگئی ہے کہ جس طرح انسانوں کا علاج ہوتا ہے اسی طرح جانوروں کا بھی علاج ممکن ہے، اس سے پہلے لوگ مویشی بیمار ہونے کی صورت میں ذبح کرتے اور 80 ہزار کا جانور 4 سے 5 ہزار میں قصاب پر فروخت کردیتے تھے۔’ عبدالناصر نے بتایا۔
مجاہد السلام کے پاس بھی 15 تک گائے ہیں اور وہی ان کا زریعہ معاش اور کل کائنات ہیں، اس نے عمر اصغر خان فاونڈیشن کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی اور سماجی کارکن عبدالناصر جمال کی کوششوں سے اب ان کے گاوں درملک میں مال مویشیوں کو ٹیکے لگوانے اور علاج کرنے کے لیے کیمپ لگایا جاتا ہے لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے، ان کے درملک علاقہ میں بھی ایک سنٹر ہونا چاہئے جہاں لوگ آسانی کے ساتھ اپنے مویشیوں کا علاج ومعالجہ کرسکیں۔
سینئر ڈاکٹر احمد حسین لائیو سٹاک لاچی ہسپتال نے بتایا کہ درملک میں وٹرنری یا لائیو سٹاک کی ڈسپنسری یا سنٹر نا ہونے کی وجہ سے وہاں کیمپ کے علاوہ اگر کوئی مرض مویشیوں میں پھیل جائے یا وبائی صورت اختیار کر لے تو مقامی لوگوں کے کہنے پر عملہ خود گھر گھر جا کر مویشیوں کو ویکسین کے علاوہ دوائیاں دیتا ہے۔
اس کے علاوہ انفرادی طور پر بھی لوگ آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان کے مویشی کو یہ یہ مسئلہ ہے تو اسی حساب سے دوائی دی جاتی ہے۔
ڈاکٹر احمد حسین نے بتایا کہ کوہاٹ لیول پر ایک موبائل لائیو سٹاک کلینک ہے جو ان علاقوں میں جا کر سروے کرتا ہے جہاں وٹرنری سنٹرز نہیں ہیں، وہاں جا کر لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ فلاں تاریخ کو ان کے علاقے میں کیمپ لگایا جائے گا اور اس دن مویشیوں کو ویکسین کے ساتھ اینٹی بائیوٹیک وغیرہ دی جائے گی، پھر اس دن علاقے کے وہ تمام لوگ اپنے مویشیوں کو لے کر آتے ہیں جن کو کوئی بیماری ہوتی ہے۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ قریشی ویلفئر ارگنائزیشن اور عمر اصغرخان فاونڈیشن ٹیم کی مدد سے درملک میں ضرورت کے تحت ویٹرنری کیمپ لگانے کا بندوبست کردیا گیا جس کے تحت اس سال درملک میں 4 جبکہ یونین کونسل کے مختلف گاوں میں 11 کیمپ منعقد ہوئے لیکن اگر اسی طرح انکی کوشش جاری رہی تو وہ وقت دور نہیں کہ درملک میں بھی ایک ویٹرنری سنٹرقائم ہوسکے گا۔