خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

خیبر پختونخوا، ذہنی مریضوں کے علاج کیلئے صرف 25 کروڑ روپے مختص

 

خالدہ نیاز

”میں روتی تھی، خود کو باتھ روم میں تین گھنٹے تک بند کرلیتی تھی یا پھر بیڈ کے نیچے گھنٹوں چھپ جایا کرتی تھی کیوں کہ مجھے ہر وقت ڈر سا لگا رہتا تھا۔”

یہ کہانی پشاور سے تعلق رکھنے والی رفعت کی ہے جس نے شادی کے بعد زندگی کا وہ بھیانک روپ دیکھا ہے جو اس نے کبھی سوچا نہ تھا۔ رفعت نے بتایا کہ جب ان کی شادی ہوئی تب وہ صرف 20 سال کی تھی، باقی لڑکیوں کی طرح اس نے بھی نئی زندگی کے حوالے سے کچھ سنہرے خواب سجائے تھے۔

رفعت نے بتایا کہ شادی کے بعد جھگڑوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور اس کی ساس نے بھی اس پر ہاتھ اٹھانا شروع کردیا۔ جب وہ مجھے مارتی تھی تو میں رونے لگ جاتی تھی پھر بھی برداشت کرلیتی تھی لیکن پھر انہوں نے مجھے ذہنی اذیت بھی دینا شروع کردی، آدھی رات کو بھی گھر سے نکال دیتی تھی، میں باہر جا کر سڑک پر کسی درخت کے نیچے بیٹھ جایا کرتی تھی اور آدھی رات کے وقت دوبارہ مجھے بالوں سے گھسیٹتے ہوئے گھر لے جاتی تھی رفعت نے وضاحت کی۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے رفعت نے کہا کہ اس دوران اس کا ایک بچہ بھی پیدا ہوا اور اس کو لگا کہ شاید بچے کے بعد اس کا گھر بس جائے لیکن وہ سلسلہ پھر بھی جاری رہا بلکہ ساس نے رہی سہی زندگی بھی اجیرن کردی۔ میں خفا ہو کر میکے چلی گئی تو وہاں سسرال والوں نے مجھ سے بچہ چھین لیا جو بعد میں واپس کردیا لیکن اس کے بعد میں ذہنی دبا میں مبتلا ہوکر ڈپریشن میں چلی گئی میں راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنا بچہ دیکھتی کہ ایسا نہ ہو وہ دوبارہ اٹھ کر میرا بچہ مجھ سے لے جائیں تب میرے گھر والوں کو بھی سمجھ پڑگئی کہ میں ڈپریشن کا شکار ہوگئی ہوں رفعت نے بتایا۔

اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ساس نے اس سے موبائل تک چھین لیا تھا، گھر والوں سے بات نہیں کرنے دیتی تھی، امید سے ہونے کے باوجود اس کو سونے نہیں دیا جاتا تھا جس کے باعث باتھ روم میں سوجاتی تھی، ساس چھوٹی چھوٹی بات پر مارتی تھی، اس کے ساتھ اس کا شوہر بھی اس میں دلچسپی نہیں لیتا تھا اور آج 10 سال گزرنے کے بعد اگرچہ ڈپریشن سے نکل آئی ہے تاہم وہ ڈر آج بھی اس میں موجود ہے۔

سائیکالوجسٹ عرشی ارباب کے مطابق شادی شدہ خواتین نہ صرف جسمانی اور ذہنی تشدد کی وجہ سے ڈپریشن میں مبتلا ہوتی ہیں بلکہ اس وقت بھی ان میں مایوسی پھیل جاتی ہے جب ان کے کام کو سراہا نہیں جاتا، جب خاوند ان کو توجہ نہیں دیتا۔

رفعت کے مطابق جب اس کے گھر والوں کو پتہ چلا کہ وہ ذہنی اور جسمانی اذیت کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوگئی ہے تب انہوں نے اس کو زیادہ وقت دینا شروع کردیا اور اس کے مسائل پہ بات کی جس کی وجہ سے وہ اب ٹھیک تو ہو چکی ہے لیکن وہ خوف سے شاید ہی کبھی نکل پائے گی۔

یہ کہانی صرف رفعت کی نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرے میں کئی ایسی خواتین موجود ہیں جو گھریلو تشدد، سہولیات کی عدم دستیابی اور باقی کئی وجوہات کی بنا پرڈپریشن میں مبتلا رہ چکی ہیں یا رہ رہی ہیں۔

پشاور کے علاقے گلبہار سے تعلق رکھنے والی60 سالہ خانم کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھی اپنی شادی شدہ زندگی میں بہت تکالیف اٹھائے ہیں جس کی وجہ سے وہ ذہنی مریضہ بن گئی تھی اور ذہنی مریضوں کے ڈاکٹرز سے باقاعدہ علاج بھی کروایا۔

اپنی کہانی سناتے ہوئے خانم نے کہا میں مزدوری کرکے اپنے8 بچوں کا پیٹ پالتی تھی، میرا خاوند مجھے پیسے نہیں دیتا تھا لیکن میں پھر بھی گزارہ کرتی تھی وہ مجھ پر تشدد بھی کرتا تھا لیکن میں بچوں کی خاطر برداشت کرلیتی تھی لیکن پھر گھر میں جب ان کی دوسری شادی کی بات چلی تو یہ مجھ سے برداشت نہ ہو سکا اور میں ڈپریشن میں چلی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ساری تکلیفیں میرے اندر جمع ہوتی رہیں اور پھر کچھ سال بعد ایسا ہوا کہ میں بیٹھے بیٹھے بے ہوش جاتی تھی، کبھی اپنے کپڑے پھاڑ لیتی تھی اس کے بعد میں نے اپنا علاج شروع کروایا، ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر سے علاج کروایا اور اب میں کافی حد تک ٹھیک ہوچکی ہوں لیکن وہ تلخیاں اب بھی یاد ہیں۔

دوسری طرف خیبرپختونخوا میں ذہنی صحت کے مریضوں کے لیے خاطر خواہ سہولیات کا فقدان ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت حاصل کردہ معلومات کے مطابق خیبرپختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں میں ذہنی امراض کے مریضوں کے لیے صرف 200 بیڈز موجود ہیں جن میں سے100 خواتین کے لیے مختص ہیں جبکہ ان ہسپتالوں میں سائیکالوجسٹ کی تعداد25 ہے کیونکہ ضلعے کی سطح پر ہسپتالوں میں سائیکاٹری وارڈز موجود نہیں ہیں۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال شعبہ سائیکاٹری کے ڈاکٹرمیاں مختارالحق عظیمی نے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ مینٹل ہیلتھ سسٹم ان پاکستان کے مطابق صوبے کی17 ملین آبادی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے پاس او پی ڈی میں مردوں کی نسبت خواتین زیادہ تعداد میں علاج کی غرض سے آتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ خواتین زیادہ ذہنی امراض کا شکار ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذہنی امراض میں ڈپریشن، انزائٹی، سائیکو اور شیزوفرینیا شامل ہیں۔

ڈاکٹرمیاں مختارالحق عظیمی نے کہا کہ ریسرچ کے مطابق خواتین جینیٹک میک اپ، ہارمونل ساخت اور سماجی ذمہ داریوں کی وجہ سے زیادہ تعداد میں ذہنی بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کی ذہنی صحت کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے پورا خاندان تباہی کی طرف جا سکتا ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہرضلعے کے ہسپتال میں کم ازکم 10 بستروں پر مشتمل سائیکاٹری وارڈ اور عملہ ہونا چاہیئے کہ اس طرح ایک تو سائیکالوجسٹ کی تعداد زیادہ ہوجائے گی دوسرا لوگوں کو بھی ذہنی امراض کے حوالے سے زیادہ سہولیات مل جائے گی۔

دوسری جانب سائیکالوجسٹ عرشی ارباب نے ڈپریشن کی علامات بتاتے ہوئے کہا کہ جب کوئی انسان ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اس کا دل زندگی سے اچاٹ جاتا ہے، اس کو رونا آتا ہے، چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ آتا ہے، روزمرہ کے کاموں میں اس کی دلچسپی ختم ہوجاتی ہے، وہ اکیلے رہنے کو پسند کرتا ہے، کسی کے ساتھ میل جول کو پسند نہیں کرتا، اس کی نیند خراب ہو جاتی ہے یعنی وہ ٹھیک طرح سے سو نہیں سکتا، خوراک یا تو بہت زیادہ کھاتا ہے یا بہت کم، اس میں چلنے پھرنے کی طاقت بھی کم ہوجاتی ہے، اس کی سوچنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے، وہ گھنٹوں گھنٹوں بیٹھ کر سوچتا رہتا ہے اور ہرطرف اس کو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔

سوشل ورکر سائرہ مفتی کہتی ہیں کہ آج کے دور میں خواتین زیادہ تعداد میں ذہنی بیماریوں کا شکار ہورہی ہیں جسکی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ سائرہ مفتی کے مطابق زبردستی کے فیصلے، ناامیدی، خواہشات کا پورا نہ ہونا، غربت، گھر کا سخت ماحول، نوکری کا نہ ملنا بھی ذہنی امراض یا ڈپریشن کی وجوہات میں شامل ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خواتین زیادہ اس لیے ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں کیونکہ ہمارا معاشرہ مردوں کا ہے جہاں خواتین کو اپنے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، ان پہ زبردستی کے فیصلے مسلط کیے جاتے ہیں، بعض خواتین کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی، ان کو فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں ملتی ان کو ایک خول میں رہنا پڑتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایسے میں خواتین سوچنے لگ جاتی ہیں اور اندر ہی اندر گلنے لگتی ہیں اور آہستہ آہستہ ڈپریشن میں چلی جاتی ہیں۔

سائرہ مفتی نے بتایا کہ خواتین اس لیے بھی زیادہ ڈپریشن کا شکار ہو رہی ہیں کیونکہ وہ بہت زیادہ احساس کرتی ہیں، سوچتی ہیں بہت زیادہ اور اگر ان کو کسی کام سے روک دیا جائے تو وہ سہم جاتی ہیں، اس کے علاوہ اگر گھر میں بھی کوئی مسئلہ ہو جائے تو چاہے عورت کا قصور ہو یا نہ ہو باتیں اسی کو سننے کو ملتی ہیں، اسی کے کردار پر ہمیشہ انگلی اٹھائی جاتی ہے، مرد بھی ڈپریشن میں جاتے ہیں لیکن وہ کہیں نہ کہیں اپنا غصہ نکال لیتے ہیں جبکہ خواتین ہمیشہ دب کے رہتی ہیں۔

اگرچہ خیبرپختونخوا کے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتالوں، بی ایچ یوز اور آر ایچ سیزمیں سائیکاٹرسٹ اور ذہنی صحت کی سہولیات موجود نہیں ہے تاہم خیبر پختونخوا حکومت نے مینٹل ہیلتھ اور سائیکو سوشل سپورٹ سروسزکے نام سے تین سال قبل ایک منصوبہ شروع کیا جس کے دوران پشاور میں ذہنی امراض کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔

اس پراجیکٹ میں کام کرنے والی کلینکل سائیکالوجسٹ سنبل گیلانی نے اس حوالے سے بتایا کہ ان تین سالوں کے دوران انہوں نے2316 مرد اور 2399 خواتین کو علاج کی سہولت دی ہے۔

سنبل گیلانی کے مطابق زیادہ ترخواتین جو ان کے پاس علاج کے لیے آئی ان میں اکثریت ڈپریشن اور انزائٹی میں مبتلا تھی اور اس کی وجوہات شوہر اور باقی گھر والوں سے گھریلو ناچاقی اور لڑائی جھگڑے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈپریشن اور انزائٹی کا شکار ان خواتین کو سائیکلوجیکل تھراپیز دی گئی جن میں آگاہی والے روئیے کی تھراپی (کاگنیٹوتھراپی) حل مرکوز تھراپی، رویئے والی تھراپی اور صدمے پرمرکوز تھراپی شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ذہنی صحت کے لیے حکومت کے کسی بجٹ کا کوئی ذکر موجود نہیں تاہم ان کے پراجیکٹ کے لیے 250 ملین کا بجٹ رکھا گیا ہے جو کے پی کے کے تمام 7 ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں معیاری ذہنی صحت کی خدمات فراہم کرنے کے لئے استعمال ہوگا اور یہ بجٹ ماہرین نفسیات، میڈیکل آفیسرز، اساتذہ اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ذریعے تمام ہیلتھ کیئرلیول پر استعمال میں لایا جائے گا۔

ڈپریشن میں مبتلا ہونے کی وجوہات کے حوالے سے سائیکاٹرسٹ عرشی ارباب نے کہا کہ کچھ لوگوں کو یہ چیز وراثت میں ملتی ہے یعنی ان کے والدین اس کا شکار ہوتے ہیں اور وہ بھی اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اپنے ماحول اور لوگوں کے رویوں کی وجہ سے ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔ نقصان دہ رسومات بھی بعض لڑکیوں اور خواتین کو ڈپریشن کی جانب دھکیل دیتی ہیں جن میں بچپن کی شادی، بڑی عمر کے مرد کے ساتھ شادی، بغیر پوچھے زبردستی کا نکاح، سورہ میں بچی کو دے دینا، وٹے سٹے کی شادی وغیرہ شامل ہیں عرشی ارباب نے کہا۔

سائرہ مفتی نے کہا کہ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ کسی کی شکل وصورت پر بھی بات کرتے ہیں جس سے دوسرا انسان احساس کمتری کا شکار ہوکر ڈپریشن میں چلا جاتا ہے اور بعض لوگوں کی ڈپریشن اس حد تک آجاتی ہے کہ انہیں اپنی زندگی سے نفرت ہو جاتی ہے اور وہ اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کر لیتے ہیں۔

پشاور کے علاقے حیات آباد سے تعلق رکھنے والی قرا العین نے اس حوالے سے کہا کہ آجکل کے دور میں خواتین کی طرح زیادہ ترلڑکیاں بھی ڈپریشن کا شکار ہو رہی ہیں کیونکہ اکثر وہ تعلیم تو حاصل کرلیتی ہیں لیکن پھر ان کو نوکری کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی جبکہ انہوں نے اپنی آنکھوں میں اچھے مستقبل کیخواب سجائے ہوتے ہیں۔

قراة العین نے کہا کہ اگر ذہنی امراض کی بات کی جائے تو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے لوگوں میں شعور کی بھی کمی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے جب کوئی ڈپریشن میں چلا جاتا ہے، بے ہوش ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں اس پہ جن آگئے ہیں اس کو دم وغیرہ کے لیے لے جا حالانکہ چاہیے تو یہ کہ ایسے مریض کو پہلے کسی اچھے سائیکاٹرسٹ کے پاس لے جایا جائے تاکہ وہاں اس کا صحیح طریقے سے علاج ہوسکے قراة العین نے وضاحت کی۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے عرشی ارباب نے کہا کہ ایسی غلط فہمیاں ہمارے لوگوں میں موجود ہیں، جب کوئی خاتون ڈپریشن کا شکار ہوتی ہے تو لوگ کہتے ہیں اس پہ جن آگیا ہے، یا کہتے ہیں اس پہ کسی نے جادو کیا ہے یا یہ کہ اس کو نظر لگی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ڈرامہ کر رہی ہے حالانکہ اگر کسی میں ڈپریشن کی علامات سامنے آئیں تو خاندان والوں کو چاہئے کہ اس کو سائیکاٹرسٹ کے پاس لے کر جائیں نہ کہ پیروں فقیروں کے پاس۔

عرشی ارباب نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس بیماری کو چھپانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنی بچی کو سائیکالوجسٹ کے پاس لے گئے تو اس کو پاگل سمجھا جائے گا اور پھر اس کے رشتے بھی نہیں آئیں گے جو کہ بہت خطرناک بات ہے کیونکہ علاج نہ ہونے کی صورت میں ڈپریشن کی شکار خواتین خودکشی بھی کر لیتی ہیں۔

ڈپریشن سے کیسے نکلا جا سکتا ہے اس حوالے سے عرشی ارباب نے کہا کہ ایسی خواتین کو سائیکاٹرسٹ اور سائیکالوجسٹ دونوں کے پاس جانا ہوگا، دوائی لینا ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ ایسی سرگرمیوں میں وقت گزارنا ہو گا جس سے ان کو سکون ملتا ہو، دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگانے سے بھی ایسے لوگوں کے دل کا بوجھ ہلکا ہو سکتا ہے جبکہ فلاحی کام کرنے سے بھی ان کو سکون مل سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ایسی خواتین اپنے لیے کچھ مقاصد بنا لیں کہ ان کو انہوں نے یہ، یہ حاصل کرنا ہے تو اس طرح وہ مصروف ہو جائیں گی اور ڈپریشن آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ڈپریشن سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ گھر کا ماحول دوستانہ رکھا جائے، سب کی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے اوراس کے ساتھ حکومت کو بھی چایئے کہ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتالوں، بی ایچ یوز اور آر ایچ سیزمیں سائیکاٹرسٹ اور ذہنی صحت کی سہولیات دیں تاکہ لوگ اس سے استفادہ حاصل کرسکیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button