مارکیٹ سے ماسک غائب ہونے کے بعد جب چارسدہ کے ٹیلرز نے یہ ذمہ اپنے سر لیا
سلمان یوسفزے
ملک بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد جب مارکیٹ سے فیس ماسک اور سینیٹائزر غآئب ہوگئے تو جہاں ایک طرف کچھ لوگوں نے اس صورتحال سےغلط فائدہ اٹھایا اورمہنگے داموں فروخت شروع کردیا وہاں دوسری جانب خالد خان جیسے غریب نوجوانوں نے خلق خدا کے لئے ان اشیاء کی مفت فراہمی شروع کردی۔
خالد خان اور ان کے چند دوست چارسدہ کے تحصیل تنگی میں ایک چھوٹے سے دوکان میں ٹیلرنگ کرتے ہیں اور اس مشکل وقت کا حل انہوں نے اس طریقے سے نکالا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے کپڑے کے ماسک سی کر علاقے کے لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
نوجوان خالد خان کے مطابق اب تک ہزاروں افراد کے ہاں ان کے مفت بنائے گئے فیس ماسک پہنچ چکے ہیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے خالد خان نے کہا کہ وہ پچھلے ایک ہفتے سے مسلسل فیس ماسک بنانے پر کام کررہا ہے اور اب تک انہوں نے 200 گز کپڑے سے لگ بگ 3000 تک فیس ماسک بنائے ہیں جو مخلتف علاقوں کے لوگوں میں مفت تقسیم کیے جاچکے ہیں۔
خالد خان کے بقول انہیں فیس ماسک بنانے کا خیال تب آیا جب اچانک مارکیٹ سے فیس ماسک غائب ہوئے اور یا ان کی قیمت بڑھا دی گئی۔
‘موجودہ حالات میں تو لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر کاروباری افراد پیسے بنا رہے ہیں لیکن میں اور میرے دوستوں ارشاد علی اور اعظم شاہ نے ملکر یہ فیصلہ کیا کہ کیوں نا ہم اس مشکل وقت میں اپنی قوم کی خدمت کریں اور اپنی تحصیل میں ہر فرد کو مفت فیس ماسک پہنچائے’
کورونا وائرس سے بچاؤ کے احتیاطی تدابیر میں ماہرین فیس ماسک کے استعمال پر بھی بہت زور دیتے ہیں جس سے آپ نہ صرف اس وائرس سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں بلکہ خدانخواستہ جو اس وائرس سے متاثر ہوجائے تو اس کے استعمال سے وہ وائرس کے مزید پھیلنے سے روک سکتا ہے۔
خالد خان نے ٹی این این کو بتایا کہ فیس ماسک کے لئے اس کے دوست ارشاد علی نے کپڑے خریدنے کا ذمہ اپنے سر لیا اور اب تک جیتنے بھی ماسک انہوں نے بنائے ہیں ان سب کے لئے کپڑے کا بندوبست ارشاد نے کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے خود بھی اپنے روزمرہ کا کام چھوڑ دیا ہے اور اب وہ صرف اور صرف مفت فیس ماسک بنانے کے لئے ڈیوٹی کرتا ہے جو وہ ایک خدمت سے کم نہیں سمجھتا۔
‘میں اپنے گھر کا اکلوتا کمانے والا ہوں ماں باپ بچپن میں اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں، محلے کے ٹیلر ماسٹر سے درزی کا کام سیکھا تب سے لیکر اب تک یہی کرتا آ رہا ہوں، لیکن اب میں خود پر فخر کرتا ہوں کہ خدا نے میرے ہاتھوں میں ایسی ہنر بخش دی ہے جس سے میں انسانیت کی خدمت کرسکوں اور یہی میرا سب کچھ ہے’
ارشادعلی سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کی اس عمل کے نیتجہ میں چارسدہ کے دیگر علاقوں میں بھی کئی ٹیلروں نے مفت فیس ماسک بنانے اور اسے تقسیم کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔
ارشاد علی کے بقول فیس ماسک بنانے کے بعد اس نے اپنے دوست اعظم علی کے ساتھ ملکر تحصیل تنگی کے 12 گاؤں کے ہر محلے میں ایک ایک فرد تک اپنی مدد آپ کے تحت مفت ماسک پہنچائے ہیں تاکہ وہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر اپنائے۔
کیا ماسک پہچنے واقعی ضروری ہے ؟
ڈاکٹرکے مطابق کورونا وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے عوام میں ایک فوبیا پھیل گیا ہے کہ اگر ماسک استعمال نہیں کیا تو کورونا وائرس کا شکار ہوں گے، بعض ضروی احتیاطی تدابیر کو ذہن میں رکھنا چاہئے اور ان پر عمل کرنا چاہئے ان میں سے ایک ہاتھ نہ ملانا، ایک بندے سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر رہے، جن کو نزلہ وزکام ہو وہ لازمی منہ کو ڈھانپ کے رکھیں، ماہرین کے مطابق کسی کو ماسک نہ ملے تو رومال یا کسی دوسرے صاف کپڑے سے منہ ڈھانپ لیں لیکن ایسا کرنا ضروری ہے۔
امریکی وزیرِ صحت ایلکس ایزار کے مطابق بعض اوقات ماسک پہننا دراصل ماسک نہ پہننے کے مقابلے میں فائدے کی بجائے نقصان دیتا ہے اور ایسا تب ہوتا ہے جب آپ ماسک پہننے کے عادی نہ ہوں یا ماسک چہرے پر فٹ نہیں آ رہا ہو اور بار بار اسے ٹھیک کرنے کے لئے چہرے کو چھوتے ہیں۔
کورونا وائرس سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں
وائرس سے متاثرہ افراد سے دور رہںا، اپنی آنکھوں، ناک اور منہ کو چھونے سے گریز کرنا، بیماری کی صورت میں گھر پر ہی رہنا، کھانسی اور چھینک کی صورت میں ٹشو پیپر استمال کرنا اور پھر فورا ضائع کرنا، اپنے ہاتھوں کو بار بار 20 سیکنڈ تک صابن سے دھونا خاص طور پر باتھ روم جاتے ہوئے، کھانے سے پہلے، کھانسی یا چھینک اور ناک صاف کرنے کے بعد اگر پانی اور صابن دستیاب نہیں تو سینیٹائزر سے ہاتھ صاف کرنا ضروری ہے جن میں کم از کم 60 فیصد الکوحل موجود ہو۔ اگر آپ کے ہاتھ گندے ہیں تو انہیں لازماً صابن اور پانی سے دھوئیں۔