کورونا سے لڑتے بونیر کے نوجوان
سلمان یوسفزے
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث ملک بھر میں جہاں ایک طرف لوگوں میں خوف ہراس پھیل گیا ہے تو وہاں دوسری جانب اب بھی بہت سے لوگ اس عالمی وباء کو سنجیدگی سے ہی نہیں لے رہے ہیں۔
ضلع بونیر میں ایسے لوگوں کو کورونا وائرس کی ہولناکی کے حوالے سے آگاہی دینے کا بیڑہ چند نوجوانوں پر مشتمل ایک گروہ نے اٹھا رکھا ہے۔ ایلم پختو ادبی کاروان نامی تنظیم کے زیر سایہ ان نوجوانوں نے آگاہی مہم کا آغاز ضلع مردان اور ملاکنڈ سے محلقہ بونیر کے گاؤں کنگر کلی سے شروع کیا ہے اور اس ضمن میں انہوں نے مقامی بازار سمیت مسجدوں، او حجروں میں کورونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کیے ہیں جن میں عوام سے ماسک کا استعمال، پرہجوم جگہوں سے دور اور گھروں میں محصور رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں اس تنظیم کے سابق صدر اور موجودہ پریس سیکرٹری احمد موسی سالار نے اس حوالے سے بتایا کہ کورونا وائرس ایک مہلک وباء ہے اور زیادہ تر لوگ اس وائرس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اس لئے ہم دوستوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت ضلع بونیر کے بیشتر علاقوں تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔
احمد موسی سالار کے مطابق آگاہی مہم میں انہوں نے پفملٹ کے ذریعے عوام کو پرہجوم جگہوں سے دور رہنے، غیرضروری سفر سے گریز کرنے، ہاتھوں کو بار بار صابن سے دھونے، ماسک کا استعمال لازمی کرنے، ہاتھ نہ ملانے اور کورونا وائرس سے بچنے کے لئے اپنے گھروں میں محصور رہنے کی اپیل کی ہے۔
آگاہی مہم میں حصہ لینے والے باچا خان یونیورسٹی کے طالب علم احسان اللہ چند ہی دن پہلے یونیورسٹی سے چھٹی ملنے پر گھر آئے ہیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ضلع بونیر سمیت ملک بھر میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے ہسپتالوں میں کوئی خاص سسٹم موجود نہیں ہے اس لئے لوگوں کو چاہئے کہ وہ وقت سے پہلے احتیاطی تدابیر اپنائیں اور اپنے آپ اور علاقے کو کورونا وائرس سے بچانے میں مہم کردار ادا کریں۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں میں بھی آگاہی مہم کا پیغام پہنچائیں تاکہ ہماری خواتین اور بچے گھروں میں بروقت احتیاطی تدابیر اپنائیں اور دوسروں کو بھی احتیاط کرنے کی تلقین کریں۔
چین کے صوبے ووہان سے جنم لینے والا کرونا وائرس اس وقت دنیا کے 192 ممالک میں پھیل چکا ہے جس سے تین لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں جن میں 17 ہزار تک لوگ لقمہ اجل بھی بن چکے ہیں۔ اس وباء کو موجودہ صدی کی سب سے بڑی وباء کہا جاتا ہے اور ماہرین کہتے ہیں کہ ابھی تک اس کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے اور اس سے صرف احتیاط اپنانے سے ہی بچا جا سکتا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے لیکچرار انور علی نے کہا کہ کورونا ایک خطرناک وائرس ہے اور ذرا سی بے احتیاطی اس وائرس کو پورے علاقے میں پھیلنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
انور علی کے مطابق کورونا وائرس انسان کے نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے اور اس کی علامات عام نزلہ زکام کی طرح ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک اس وائرس کی لیپٹ میں ہیں اور بونیر سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں اس وائرس سے کئی افراد متاثر ہو چکے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہم بروقت اس وائرس سے بچنے کے لئے احتیاط کریں اور عوام کو آگاہ کریں۔
انورعلی نے بتایا کہ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان کو آسانی سے منتقل ہوتا ہے اس لئے ہمیں چاہیے کہ سلام کلام میں احتیاط کریں اور ہاتھ ملانے سے گریز کریں۔ اس کے علاوہ اگر کسی شخص میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہو جائیں تو اسے فورا آئسولیشن میں رکھا جائے۔
انور علی کے مطابق کورونا وائرس تقریباً ایک میٹر کے فاصلے میں پھیلتا ہے اس لئے اگر کسی شخص کو چھینک آجائے تو اسے چاہئے کہ وہ ماسک میں چینھکے یا چھینکتے وقت کہنی کو منہ پر رکھے تاکہ یہ وائرس کسی دوسرے شخص کو متاثر نہ کرے۔
بونیر میں کیسز
پاکستان میں بھی کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور اب تک ساڑھے نو سو سے زائد لوگ اس مرض میں مبتلا ہوئے ہیں جن میں سب سے زیادہ صوبہ سندھ سے ہیں۔
کورونا وائرس کے بونیر سمیت خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع سے 78 کیسز سامنے آئے ہیں جن میں تین کی ہلاکت بھی ہو چکی ہے۔ بونیر کے مقامی ذرایع کے مطابق ضلع میں اب تک دو مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں ایک شخص حال ہی میں ملائشیا سے واپس آیا ہے جبکہ دوسری ایک خاتون مریضہ ہیں اور وہ بھی چند دن پہلے ہی کراچی سے بونیر آئی ہیں۔
کیسز سامنے آنے کے بعد ضلع بونیر کے ڈپٹی کمشنر نے بونیر کے کنگر کلی، کلیل، شہیدہ سر اور سر ملنگ کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو 15 روز تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد ان علاقوں میں بازار مکمل طور بند ہیں جبکہ لوگ گھروں میں محصور ہو گئے ہیں۔
حکومت نے اب صوبے کے تمام اضلاع میں جزوی لاک ڈاون کا اعلان بھی کیا ہے جس کے تحت اشیائے ضروریہ کی دوکانوں یعنی فارمیسی، کریانہ، پٹرول پمپس وغیرہ کے علاوہ تمام مارکیٹس اور شاپنگ مالز بند کئے جا چکے ہیں اور بین الاضلاع پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی کے بعد اب شہروں کے اندر چلنے والی بسیں، ویگنز، ٹیکسی، رکشے اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی بند کیا جا چکا ہے۔