خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

‘خواتین کے لیے مختص سیٹوں پر بھی مرد حضرات کو بٹھایا جاتا ہے’

سیدہ قراۃ العین

بس ریپڈ ٹرانزٹ [بی آر ٹی] کی تکمیل سے دیگر لوگوں کی طرح ملازمت پیشہ خواتین نے بھی امیدیں باندھ رکھی تھیں کہ اس سے ان کے مسائل بڑی حد تک کم ہو جائیں گے لیکن گذشتہ ڈھائی سال سے منصوبے میں بار بار تعطل کی وجہ سے ان کی امیدیں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں۔

پشاور میں ملازمت پیشہ خواتین کو گھریلو مسائل کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پشاور میں خواتین کے لئے 2009 میں ایک الگ بس سروس شروع کی گئی تھی جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر جلد ہی ختم کر دی گئی۔

اس وقت صوبائی دارالحکومت میں خواتین کے لئے کوئی الگ ٹرانسپورٹ کا نظام موجود نہیں ہے اور آمدورفت کے لیے ان کو پبلک ٹرانسپورٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے جہاں ان کو مختلف مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

پشاور میں ملازمت پیشہ خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ میں کن کن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اس حوالے سے ٹی این این نے چند خواتین سے بات کی ہے۔

نجی ادارے میں کام کرنے والی سائرہ مفتی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وہ دفتر آنے جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتی ہیں جہاں ان کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سائرہ مفتی گلبہار کی رہنے والی ہیں اور ان کا دفتر یونیورسٹی ٹاون میں ہے۔ ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ ویگن اور بس والے ڈرائیوز گاڑیوں میں حد سے زیادہ مسافر بٹھاتے ہیں جس کی وجہ سے بسااوقات مسافر خواتین کے پورشن میں بھی گھس جاتے ہیں۔ ‘اور تو اور ٹیکسی اور رکشے والے ڈرائیور بھی خاتون سواری کو مذکورہ جگہ پر اتارتے وقت طے شدہ کرایہ سے زیادہ کرایہ بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ دینے پر لڑنے لگتے ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہوتا ہے یہ خاتون ہے تو اونچی اواز میں بولنے لگتے ہیں تو اس وجہ سے ان کو منہ مانگا کرایہ دینا پڑتا ہے تاکہ کوئی تماشہ نہ بنے۔’

انہوں نے کہا کہ بی آرٹی سے خواتین کو امیدیں تھیں تاہم وہ بھی اب دم توڑنے لگی ہیں کیونکہ وہ تو بن ہی نہیں رہی اور کیا پتہ اس میں بھی خواتین کے لیے کم سیٹیں ہی مختص ہوں۔

حسیبہ بھی ان خواتین میں شامل ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتی ہیں۔ حیات آباد میں خواتین کی جِم میں بطور انسٹرکٹر کام کرنے والی حسیبہ کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ صدر سے حیات آباد آتی جاتی ہیں اور پچھلے 5 سال سے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ وین میں فرنٹ سیٹس خواتین کے لیے مختص ہوتی ہیں تاہم ان پر بھی اکثر مرد بیٹھے ہوتے ہیں۔ ‘بہت دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ مرد اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوتے ہیں اور مجھے صبح وقت پر پہنچنا ہوتا ہے اس وجہ سے دیر ہو جاتی ہے اور بہت سی خواتین میرے ساتھ کھڑی انتظار کر رہی ہوتی ہیں جو کہ ایک تکلیف دہ عمل ہے۔’

انہوں نے بتایا کہ جب کوئی سٹاپ پر کھڑا ہوتا ہے تو وہاں مرد بھی ہوتے ہیں اسی لیے یہ بھی ڈر ہوتا ہے کہ کوئی نازیبا کمنٹ نہ کر دے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عورتوں کو برابری کا حق نہیں ملتا کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں مردوں کے لئے زیادہ جگہ مختص ہوتی ہے اور عورتوں کے لئے کم۔

حسیبہ نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ 15000 تک کماتے ہیں تو وہ نہیں کرسکتے کہ زیادہ اخراجات کی وجہ سے وہ ٹیکسی اور رکشہ میں سفر کر سکیں اس لیے وہ بھی یہی کوشش کرتی ہیں کہ بس یا سوزوکی استعمال کریں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ خواتین کے لئے الگ کوئی بس یا وین سروس شروع کرنی چاہیے کہ ان جیسی کام کرنے والی خواتین، جو کہ گھر کے اخراجات بھی اٹھا رہی ہیں، کیلئے آسانی ہو۔

دوسری جانب عزیر گل، جو ٹریفک ڈیپارٹمنٹ میں بطور کلرک کام کرتے ہیں، نے بتایا کہ ایبٹ آباد اور مردان میں خواتین کے لئے پنک بس سروس کام کر رہی ہے اور حکومت پشاور میں بھی خواتین کے لیے آنے والے وقت میں ایک ایسی ہی بس سروس شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ خواتین کو آمدورفت میں آسانی ہو۔

رخسار جاوید پشاور کے ایک سرکاری ریڈیو چینل میں آر جے کی حیثیت سے کام کرتی ہیں، ان کا کہنا ہے ‘مجھے وقت پر گاڑی نہیں ملتی، اکثر لیٹ ہو جاتی ہوں جس کی وجہ سے مجھے پریشانی کا سامنا ہوتا ہے’

حسیبہ سے اتفاق کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پشاور میں خواتین کے لیے ایک الگ ٹرانسپورٹ ہونی چاہیے کیونکہ یہاں زیادہ تعداد میں خواتین ملازمت پیشہ ہیں اور وین میں جو جگہ خواتین کے لئے مختص ہوتی ہے وہاں بھی مردوں کو بٹھا دیا جاتا ہے اور خواتین کے لئے جگہ بھی کم ہوتی ہے کیونکہ صرف دو ہی سیٹیں ہوتی ہیں جہاں مردوں کو بٹھانا سمجھ سے بالاتر ہے۔

دوسری جانب پشاور میں ٹریفک پولیس کے پی آر او رشید نے بتایا کہ یہ قانون کے خلاف ہے کہ خواتین کی جگہ پر مرد حضرات کو بٹھایا جائے۔

انہوں نے کہا ‘اگر سٹاپ پر کوئی خاتون نہ ہو تو بس اور ویگن والے خواتین کی جگہ پر مرد کو بٹھا لیتے ہیں لیکن یہ اگر کوئی بھی ٹریفک پولیس اہلکار دیکھے تو وہ فوراً چالان کرتا ہے اور اگر ایسا ہو کہ ایک سٹاپ پہ مرد عورتوں کی جگہ بیٹھ گیا ہے کیونکہ وہاں کوئی خاتون نہیں تھی اور اگلے سٹاپ پر کوئی خاتون کھڑی تو ہم اس سے جگہ خالی کروا کر خاتون کو بٹھا دیتے ہیں اور ڈرائیور کو چالان بھی دیتے ہیں۔’

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button