پشاور کی عارفہ کا ایک کمرے سے بیوٹی سیلون تک کا سفر
خالدہ نیاز
‘پہلی بار جب میں نے گھر والوں سے سیلون کی اجازت مانگی تو میرے چچا نے فوراْ انکار کرتے ہوئے کہا کہ کل کو ہمیں لوگ نائی کہہ کر پکاریں گے۔’ پشاور کے مشہور بیوٹی سیلون کی بانی عارفہ فاروق نے بتایا اور کہا کہ گھر والوں کو بہت مشکل سے منایا اور آج اس مقام پر ہوں کہ گھر والے ان پر فخر کر رہے ہیں۔ ‘میں نے چچا سے کہا کہ ہنر کوئی بھی برا نہیں ہوتا اور میں کبھی بھی خاندان کے نام پر آنچ نہیں آنے دوں گی۔’
عارفہ فاروق گزشتہ اکیس سال سے بیوٹیشن کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ایک کمرے سے اپنا سفر شروع کیا اور آج حیات آباد پی ڈی اے بلڈنگ میں مہک بیوٹی سیلون کے نام سے ایک بہت بڑا سیٹ اپ چلا رہی ہیں جہاں ان کے ساتھ چھ سے سات تک مزید لڑکیاں بھی کام کر رہی ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا ‘جب میں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا تو اس کے بعد میری خواہش تھی کہ میں نیشنل آرٹ کالج لاہور میں داخلہ لوں لیکن گھر والوں نے اجازت اس لیے نہیں دی کہ اب تم لڑکوں کے ساتھ پڑھو گی تو میں نے کسی اور کالج میں بھی داخلہ نہیں لیا تب میری کزن نے مجھے کہا کہ ایک کورس شروع ہو رہا ہے بیوٹیشن کا تو وہ کرلو کہ تمہیں ویسے بھی آرٹ کا شوق ہے اور رنگوں سے محبت ہے لیکن شروع میں مجھے اس کی بھی اجازت نہیں تھی کہ میں بیوٹیشن کورس کروں اور پھر ایک بیوٹی پارلر کھول لوں لیکن کسی طریقے سے اپنے والدین کو راضی کیا اور پھر کورس کرلیا۔’
انہوں نے بتایا کہ بیوٹیشن کا ایک سالہ کورس کرنے کے بعد انہوں نے اپنا تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا اور بی اے کا امتحان بھی پاس کیا۔ عارفہ فاروق کے مطابق شوق کی وجہ سے ایک سالہ بیوٹیشن کورس میں انہوں نے ٹاپ تو کر لیا لیکن جب بات آئی کام کرنے کی تو مخالفت شروع ہو گئی اور کہا گیا کہ یہ کام مت کرو۔
‘میں نے بیوٹی پارلر کا کام اپنے گھر کے ایک کمرے سے شروع کیا جو مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد آج ایک بیوٹی سیلون کی شکل اختیار کر چکا ہے، بعد میں، میں نے بیوٹیشن کی ایڈوانس تربیت لاہور سے لی اور بہت ساری نئی چیزیں سیکھیں جس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اب اپنے پارلر کو گھر سے نکال کر باہر منتقل کروں اور بڑے لیول پر کام کروں تو جب میرے ماموں وفات پا گئے اور میری امی اور ان کی دوسری بہن کو جائیداد میں ان کا حصہ مل گیا تب میں نے اپنی ماں سے کہا کہ مجھے آپ کچھ پیسے دے دیں کہ میں اپنے لیے بیوٹی پارلر کھول لوں۔’ انہوں نے بتایا۔
عارفہ فاروق نے بتایا کہ شروع میں سب نے ان کا مذاق اڑایا کیونکہ اس وقت ان کی عمر 22 سال تھی اور وہ چھوٹی تھیں لیکن ان کی ماں نے ان کو کچھ پیسے دے دیئے اور پیسے دیتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ جب تم کماؤ گی تو اس میں سے اپنی باقی بہنوں کو بھی پیسے دو گی جس پر انہوں نے رضامندی ظاہر کر دی۔
انہوں نے کہا کہ امی کی وفات کے بعد مالی مشکلات کی وجہ سے ان کا گھر نہیں رہا تاہم ان کے والد نے ان سمیت ساری بیٹیوں کو اپنا اپنا حصہ دیا۔ اپنا حصہ ملنے بعد انہوں نے ایک 14 مرلے کا گھر کرائے پر لیا اور اس میں اپنا پارلر کا سیٹ اپ بنایا، اوپری منزل میں یہ لوگ رہا کرتے تھے جبکہ نیچے پارلر کا سیٹ اپ تھا۔
عارفہ فاروق نے کہا کہ خاندان والوں کی سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے شروع میں ان کو وہ کامیابی نہ مل سکی جس کی وہ امید رکھتی تھیں لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور کام کرتی رہیں جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان کو کامیابی ملنا شروع ہوئی تو اس دوران ان کی شادی ہو گئی لیکن پھر بھی انہوں نے اپنا کام نہیں چھوڑا، بیٹے کی ماں بنیں تو بھی کام کرتی رہیں اور ساتھ ساتھ اپنی بہنوں اور والد کو بھی سپورٹ کرتی رہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پہلا سیٹ اپ جب کامیابی کی طرف چل پڑا تو اس دوران مالک مکان نے ان کو گھر خالی کرنے کا کہا جس کے بعد انہوں نے دوبارہ سے کسی اور جگہ اپنا سیٹ اپ بنایا اور جو کمایا تھا وہ اس پر لگا دیا لیکن وہاں بھی بمشکل دو سال ہی کام کر پائی تھیں جب پی ڈی اے والے ان کے پیچھے پڑ گئے کہ اس جگہ کو خالی کردو۔
عارفہ فاروق کے مطابق دوسرے سیٹ اپ میں ان کا سارا سرمایہ ڈوب گیا جس پر وہ عارضی طور پر تو دلبرداشتہ ہوئیں لیکن چونکہ انہوں نے اپنی زندگی کے کئی سال اس فیلڈ کو دیئے تھے اس لئے کمرشل ایریا میں ایک نئی جگہ ڈھونڈی اور 2014 میں مہنگے داموں اپنا یہ تیسرا سیٹ اپ بنایا جو آج تک چل رہا ہے۔
اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچوں کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ گھر کو بھی دیکھنا ہوتا ہے اس کے ساتھ اپنے بچوں اور کام کو بھی وقت دینا پڑتا ہے اور پارلر کا کام ویسے بھی مشکل ہوتا ہے کہ صبح 10 بجے سے لے کر رات 8 بجے تک کام کرنا پڑتا ہے۔ ‘میں گھر جا کر بچے کو کھلاتی، پلاتی اور واپس آکر کام شروع کرتی، پھر جاتی بیٹے کو پڑھاتی پھر آتی تو کافی مشکل تھا، پارلر اور گھر دونوں کو سنبھالنا لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور کام اور گھر دونوں کو وقت دیتی رہی۔’
انہوں نے کہا کہ کمرشل ایریا میں آنے سے بھی ان کی مشکلات میں کمی نہ آسکی کیونکہ خواتین جب کام کرنے نکلتی ہیں تو ان کو تنگ کیا جاتا ہے مختلف طریقوں سے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔
عارفہ فاروق کے مطابق آج کل ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہے وہ اٹھ کر پارلر کھول لیتی ہے لیکن کچھ عرصے بعد وہ بند ہو جاتا ہے کیونکہ انہوں نے کام سیکھا نہیں ہوتا اور پارلر کھول لیتی ہیں تو ضروری ہے کہ جو اس کو چلا رہا ہے اس کو کام آئے تاکہ کام بھی چل سکے اور اس کے ساتھ ساتھ بننے سنورنے آنے والی خواتین کے ساتھ بھی ظلم نہ ہو کہ بالوں اور سکن کا معاملہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘ابھی بھی میری حکومت کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے اس حوالے سے ایسی خواتین کو لائسنس دے جو کام سیکھ چکی ہیں کیونکہ پارلرز کی آڑ میں بہت سے غلط کام بھی ہو رہے ہیں لیکن دوسری طرف ایسی خواتین بھی ہیں جو اپنے گھروں میں پارلر چلا کر اپنے گھر کا خرچہ چلا رہی ہیں۔’
ایک سوال کے جواب میں عارفہ فاروق نے بتایا کہ ایک خاتون کو بیوٹیشن بننے میں 5 سال لگ سکتے ہیں اور اگر وہ محنت اور ایمانداری سے کام کرتی رہے تو خودمختار ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے اپنے گھر کو بھی چلا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین گھر میں ایک شیشہ اور میک اپ کا سامان خرید کر بھی پارلر کھول سکتی ہیں لیکن اگر وہ کمرشل ایریا میں اپنا سیٹ اپ کھول لیں تو بہت کامیابی حاصل کرسکتی ہیں۔
عارفہ اپنے بیوٹی سیلون میں بچیوں کو تربیت بھی دیتی ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسی بچیوں کو تربیت دیں جو پڑھی لکھی نہ ہوں کیونکہ ان کو کوئی اور نوکری نہیں مل سکتی تو ان کے سیلون میں نہ صرف وہ ہیئر، سکن، میک اپ سیکھ کر بیوٹیشن بن سکتی ہیں بلکہ بعد میں اپنا سیٹ اپ چلا کر خودمختار بھی بن جاتی ہیں اور اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ بھی سیکھ لیتی ہیں۔