خیبر پختونخوا

صحت کارڈ سب کیلئے مگر سرکار کو او پی ڈی کی سہولت دینے میں مسئلہ کیا ہے؟

سلمان یوسفزے

خیبر پختونخوا حکومت نے رواں سال کے آخر میں تجرباتی بنیادوں پر صوبے کے چار اضلاع میں صحت انصاف کارڈ میں عوام کو او پی ڈی کی سہولت دینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن صحت سہولت پروگرام کے صوبائی ڈائریکٹر محمد ریاض تنولی نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اس عمل میں بہت مشکلات پیش آئیں گی۔

ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے ریاض تنولی نے کہا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ انشورنس میں او پی ڈی کور کرنا بہت مشکل کام ہے، اس میں آپ کو میڈیسن کے پیسے دینے ہوں گے، لوگ ڈاکٹروں سے جھوٹی پریسکرپشن بھی لکھوا سکتے ہیں جو بعد میں میڈیکل سٹور کے ساتھ ڈیل کرکے میڈیسن کے بجائے ان سے آدھے پیسے لے لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ دوسری وجہ یہ ہے کہ او پی ڈی کا خرچہ بہت زیادہ ہے، اگر ہم اس پروگرام میں ایک خاندان کے حساب سے او پی ڈی کے 2000 ہزار روپے لگا دیں تو اب اگر ہمارا خرچہ 12 ارب روپے ہے تو او پی ڈی کے شامل ہونے بعد یہ خرچہ شائد 30 ارب تک جا پہنچے۔

ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے ریاض تنولی نے کہا کہ حکومت خیبر پختونخوا نے مردان، ملاکنڈ، کوہاٹ اور چترال میں او پی ڈی کی سہولت دینے کے ساتھ ساتھ رواں سال یکم جولائی سے خیبر پختونخوا میں تمام شناخی کارڈ ہولڈرز کو صحت انصاف کارڈز دینے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سلسلے میں 20 فروری سے پہلے ٹینڈرز جاری کیا جائے گا۔
"ہم اس پروگرام میں ان بیماریوں کو کور کرتے ہیں جن کا لوگوں کی غربت پر زیادہ اثر پڑتا ہے، مثال کے طور پر ایک مریض کو دل کے آپریشن کے لیے ایک لاکھ روپے درکار ہیں اور اس کے پاس صحت انصاف کارڈ نہیں ہے تو وہ ایک لاکھ کا بندوبست کرنے کے لئے یا تو کسی سے قرضہ لے گا اور یا گھر کی کسی چیز کو فروخت کرکے اپنا علاج کروائے گا لیکن ہم نے ان کو وہ سہولت صحت انصاف کارڈ میں دی ہیں جس سے وہ باآسانی اپنا علاج کروا سکتے ہیں۔”

صوبائی ڈائریکٹر محمد ریاض تنولی نے ٹی این این کو بتایا کہ دسمبر 2015 سے غریب عوام کو صحت کی سہولت دینے کے لئے شروع کیے گے پروگرام میں اب تک خیبر پختوںخوا کے 22 لاکھ خاندانوں کو صحت انصاف کارڈز مہیا کر دیے گئے ہیں اور وہ صوبے کے کسی بھی سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کروا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پی ایم ٹی سکور کی بنیاد پر غریب اور مستحق خاندانوں میں یہ کارڈز تقسیم کیے ہیں لیکن اب یکم جولائی سے صوبے بھر میں جتنے بھی شناختی کارڈز ہولڈرز افراد ہیں ان سب کو صحت سہولت کارڈز مہیا کر دیا جائے گا اور ایک اندازے کے مطابق حکومت نے اس پروگرام کے لئے لگ بھگ 15 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا ہے جس میں عوام کے ساتھ ساتھ اعلی وزرا کو بھی مفت علاج کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

محمد ریاض تنولی کے بقول موجودہ صورتحال میں ان افراد کو صحت انصاف کارڈز کا مستحق قرار دیا گیا ہے جن کی یومیہ آمدن 320 روپے سے کم ہے کیونکہ بینظر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا کے مطابق خیبر پختونخوا میں تقریباً 64 فیصد خاندانوں کی فی شخص آمدن 320 روپے سے کم بتائی گئی ہے۔

صوبائی ڈائریکٹر کے مطابق حالیہ دنوں میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے نکالے جانے والے افراد کا اس پروگرام پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے اور نہ ہی ابھی تک حکومت نے ہمیں ان افراد کو صحت انصاف کارڈز پروگرام سے نکالنے کا حکم دیا ہے۔

صحت انصاف کارڈ کے تحت دی جانے والی سہولیات

صحت انصاف کارڈ کے صوبائی میڈیکل افسر ڈاکٹر سلیم کے مطابق صحت انصاف کے ذریعے ایک خاندان سالانہ سات لاکھ 20 ہزار روپے تک کا مفت علاج صوبے کے کسی بھی ہسپتال میں کرا سکتے ہیں۔

صحت انصاف کارڈ کے تحت دی جانے والی دیگر سہولیات مندرجہ ذیل ہیں۔

• تمام بیماریاں جس میں میڈیکل یا سرجری شامل ہو

• ایمرجنسی علاج جس میں مریض کو ہسپتال میں داخل کرنا پڑے

• میٹرنٹی سروس جس میں نارمل ڈیلیوری اور سی سیکشن ڈلیوری شامل ہے

• میٹرنٹی کنسلٹیشن جس میں بچے کی پیدائش سے پہلے 4 دفعہ ڈاکٹر سے معائنہ اور بچے کی پیدائش کے بعد 1 دفعہ ڈاکٹر سے معائنہ شامل ہے

• میٹرنٹی کنسلٹیشن جس میں فیملی پلاننگ اور خوراک کے لیے نیوٹریشنز شامل ہیں

• حادثاتی طور پر زخمی ہونے اور ہڈی وغیرہ کے ٹوٹ جانے کا علاج شامل ہے

• بیماری کی صورت میں ہسپتال تک آنے کے لیے ٹرانسپورٹ کا 1000 روپے تک کا خرچہ شامل ہے۔

• تمام میڈیکل اور سرجیکلز پروسیجرز

• دل کی بیماریاں (انجیوپلاسٹی اور بائی پاس آپریشن)

• گُردے کی آخری سٹیج کی بیماری جس میں dialysis شامل ہے

• ہیپاٹائٹس اور ایج آئی وی وغیرہ

• جگر، گُردے، دل اور پھیپھڑے فیل ہوجانے کی صورت میں

• کینسر کا علاج جس میں کیمیو تھراپی، ریڈیو تھراپی اور سرجری شامل ہے

• نیورو سرجیکل پروسیجرز

ہسپتالوں میں کیا سہولیات دی گئی ہیں؟

ڈاکٹر سلیم کے مطابق اس پروگرام کے شروع میں سہولیات کے متعلق کچھ شکایات موصول ہوئی تھیں لیکن اب کافی حد تک ان شکایات کو کم کردیا گیا ہے ہاں البتہ سرکاری ہسپتالوں کی نسبت غیرسرکاری ہسپتالوں میں سہولیات زیادہ ہیں کیونکہ سرکاری ہسپتالوں میں زیاترہ گورنمنٹ کے رولز اپلائی ہوتے ہیں۔

اسی حوالے سے صحت انصاف کے صوبائی ڈائریکٹر محمد ریاض تنولی کا کہنا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں اگر کوئی شحص صحت انصاف کارڈ کے ذریعے اپنا علاج کروا رہا ہے تو ہسپتال کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ متعلقہ مریض کو میڈیکل سٹور سے مفت میڈیسن فراہم کرے لیکن مسلہ یہ ہے میڈیکل سٹور والے کریڈیٹ پر ہسپتال کو میڈیسن نہیں دیتے جس سے مریضوں کو شکایت کا موقعہ ملتا ہے۔

انہوں نے دعوی کیا کہ پچھلے دو سالوں کی نسبت پرائیویٹ سیکٹر کے مقابلے میں پبلک سیکٹر میں بہتری آئی ہے اور اس وقت ہمارے ساتھ صحت سہولت پروگرام میں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس بہتر طریقے سے چل رہا ہے۔

محمد ریاض تنولی کے مطابق اس ضمن میں زیادہ تر وہ لوگ شکایت کرتے ہیں جن کے پاس یا صحت انصاف کارڈ نہیں ہوتا اور یا انہیں علاج کی سہولت اس کارڈ میں مہیا نہیں ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button