صحت

کیا دمہ کی بیماری جان لیوا ہے؟

 

انیلا نایاب

ایک عمر رسیدہ خاتون کھانستی ہوئی ہاتھ میں پرچی پکڑکر ہسپتال کے بینچ پر اپنے معائنے کے لئے ڈاکٹر کا انتظار کررہی تھی۔ ان سے پوچھنے پر بتایا کہ وہ دمہ کی مریضہ ہیں۔ علاج و معالجے کے لئے ان کو ہر مہینے لیڈی ریڈنگ ہسپتال آنا پڑتا ہے۔

بصری بی بی کا تعلق بالائی دیر سے ہے جن کو پچھلے کئ سالوں سے دمہ کا عارضہ لاحق ہے۔ کہتی ہیں کہ پہلے جب بھی انکو سانس کی تکلیف ہوتی تھی تو وہ مقامی ہسپتال جاتی تھی دوائی سے افاقہ ہوجاتا تھا۔ لیکن اب ایک سال سے وہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال علاج و معالجے کے لئے آتی ہیں۔ یہاں آنے کے بعد ڈاکٹر نے ٹیسٹ و ایکسرے کیے جس کے بعد بتایا گیا کہ ان کو دمہ ہے۔

ان کے ساتھ ایک دوسری خاتون بھی ڈاکٹر کے معائنے کا انتظار کر رہی تھی جو کوئی افغانی معلوم ہو رہی تھی۔ ان سے جب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق افغانستان کے صوبے قندھار سے ہے۔ ان کو بھی دمہ ہے۔ حالت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے اب ہسپتال سے علاج کرانا چاہتی ہیں۔

انکی عمر 30 سے 35 سال معلوم ہورہی تھی ان کو بھی اپنی بیماری کا علم نہیں تھا کہ کب سے ہے لیکن پہلے سانس کی تکلیف کم ہوتی تھی اب بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کبھی تو رات کو ایسا لگتا ہے جیسے ان کی سانس ایسی چلی گئی ہے شاید اب واپس نا آئے بہت دیر بعد انکی سانس بحال ہوتی ہے۔ اب ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ان کی علامات دمہ کی ہے۔

دمہ کیا ہے وجوہات پرہیز اور علاج کے حوالے اسسٹنٹ پروفیسر انیلا باسط بتاتی ہیں کہ اگر دمہ کی خصوصیت بیان کی جائے تو یہ پھپھڑوں کی دائمی مرض ہے سوزش اور ہوا کی نالی میں تنگی سے ہوتی ہے  جسکی وجہ سے سانس لینے میں کافی دشواری ہوتی ہے۔

دمہ کی علامات

لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور پلومونالوجی ڈیپارٹمنٹ کی اسسٹنٹ پروفیسر انیلا باسط دمہ کی علامات کے بارے میں بتاتی ہیں کہ سانس لینے میں دشواری یا کمی، سینے میں تکلیف، گھرگھراہٹ یعنی سیٹیوں کی آواز سینے سے نکلنا،، کھانسی خاص طور پر سوتے ہوئے یا ہنستے ہوئے دمہ کی عام علامات ہے۔ جیسے ہی یہ علامات پائی جائے مریض کو مستند ڈاکٹر سے جلد از جلد رجوع کرنا چاہئے کیونکہ دمہ خطرناک مرض ہے اور اسکا کوئی مستقل علاج نہیں ہے۔

دمہ کی وجوہات

انیلا باسط دمہ کی وجوہات کے بارے میں بتاتی ہیں کہ بعض لوگوں میں بچپن سے ہی دمہ کی شکایات ہوتی ہیں۔ وہ جینیاتی یا مورثی ہوتی ہے لیکن یہ کسی بھی عمر میں ظاہر ہوسکتی ہے۔ پچپن میں ہونے والا دمہ 7 سال تک رہ سکتا ہے۔ بالغ لوگوں میں بھی دمہ کی شکایات پیدا ہوتی ہے ان کو دیر سے پیدا ہونے والا دمہ بھی کہا جاتا ہے اگر کسی بھی مریض کی فیملی ہسٹری نا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ دمہ ماحولیاتی آلودگی ، دھوئیں ، سگریٹ نوشی، موٹاپے وغیرہ سے لگ سکتا ہے۔

دمہ اور اس کا علاج
اسسٹنٹ پروفیسر انیلا باسط دمہ کے علاج کے بارے میں بتاتی ہے کہ ابھی تک دمہ کا کوئی مستقل علاج دریافت نہیں ہوا لیکن اسکی شدت میں کمی بیشی لائی جاسکتی ہے یا خود کو اس بیماری سے احتیاط اور بر وقت علاج سے بچایا جا بھی سکتا ہے۔ اگر علاج بر وقت نا کیا گیا تو ہسپتال میں داخل ہونے کے ساتھ ساتھ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے اور نوجوان سب سے زیادہ دمہ کا شکار ہوتے ہیں۔ طویل مدتی علاج اگر نا کیا جائے تو دمہ خون میں آکسیجن کی مسلسل کمی کا باعث بنتا ہے دل کا فیل ہوجانا بھی سبب بن سکتا ہے۔ اور زندگی کا دورانیہ بھی کم ہوجاتا ہے۔ اس لئے جتنا جلد ممکن ہو دمہ کا علاج کیا جائے تاکہ دمہ کی شدت کنٹرول ہوسکے۔

انیلا باسط بتاتی ہیں کہ دمہ کے بنیادی اور اہم علاج انہیلر ہے اور اسکا باقاعدگی سے استعمال کرنا چاہئے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں زیادہ تر مریضوں کو انہیلر ڈیوائسز کا صحیح استعمال معلوم نہیں ہے۔ دمہ کا مناسب احتیاطی علاج اور انہیلر کا درست استعمال پلمونری ٹیکنیکل ڈاکٹرکی اہم زمہ داری ہے تاکہ دور دراز سے آنے والے مریض کسی بھی ایمرجنسی صورت حال سے بچ سکیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button