لائف سٹائل

کیا بی آر ٹی سروس بند ہونے والا ہے؟

 

آفتاب مہمند

پشاور کا بی آر ٹی سروس مالی مشکلات کے باعث بند ہونے کا خدشہ بڑھ گیا۔ بی آر ٹی سٹیشن مینجمنٹ کمپنی نے نگران وزیراعلی خیبر پختونخوا کو خط لکھ دیا۔ نگران وزیر اعلی کو لکھے گئے خط کے مطابق 11 کروڑ 47 لاکھ کے بقایاجات فوری ادا کی جائے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ بی آر ٹی میں روزانہ 3 لاکھ تک مسافر سفر کرتے ہیں۔ رقم کی عدم ادائیگی پر مسافر متاثر ہوسکتے ہیں۔

بس انتظامیہ کا کہنا ہے کہ متعلقہ حکام کو کئی بار آگاہ کیا لیکن شنوائی نہ ہوئی۔ ٹرانس پشاور کے پاس فنڈز موجود ہیں لیکن ادائیگی نہیں کر رہے۔ نگران وزیر اعلی کے نام خط میں مزید کہا گیا ہے کہ معاملے میں مداخلت کرکے رقم کی ادائیگی یقینی بنائی جائے۔ واضح رہے کہ بی آر ٹی بسیں چلانی والی کمپنی نے بھی 45 کروڑ کے بقایاجات کیلئے وزیر اعلی کو خط لکھا تھا۔

ٹرانس پشاور ذرائع کے مطابق پشاور کی بی آر ٹی پراجیکٹ پر خیبر پختونخوا کی حکومت نے سالانہ 3 اعشاریہ 6 بلین روپے سبسڈی دے رکھی ہے۔ پراجیکٹ میں 3 سے ساڑھے تین ہزار تک ملازمین کام کر رہے ہیں جسمیں 62 ملازمین ٹرانس پشاور کے اور باقی ملازمین ڈائیو یا دیگر نجی کمپنیز یا سکیورٹی کمپنیز کے ہیں۔ بی آر ٹی انتظامیہ کو ٹگ شاپس، اشتہار و دیگر بعض ذرائع سے بھی اب رونیو جنریٹ ہونا شروع ہو چکی ہے۔ اسی طرح بعض بڑے سٹیشنز کے احاطے میں پلازے بھی تعمیر کئے جارہے ہیں۔ مزکورہ پلازے مکمل ہونے کی صورت میں بی آر ٹی پراجیکٹ مزید ریونیو جنریٹ کر پائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے ملازمین کو تنخواہ دینے اور باقی اخراجات کے لیے پیسے نہیں ہے جس کی وجہ سے مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

مالی مشکلات کے باعث بی آر ٹی میں کام کرنے والے کئی نجی سکیورٹی گارڈز نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ٹی این این کو بتایا کہ انکو ماہانہ 25 سے 30 ہزار تک روپے ملتے ہیں جبکہ مہنگائی کے اس دور میں یہ رقم تو کچھ بھی نہیں اور اگر یہ پیسے بھی بند کئے جاتے ہیں تو انکا پھر بنے گا کیا لہذا ایسے میں ملازمین خود بھی پریشان ہیں۔

بی آر ٹی میں سفر کرنے والے مسافروں نے ٹی این این کو بتایا کہ پشاور شہر کیلئے بی آر ٹی منصوبہ ایک غنیمت سے کم نہیں کیونکہ اس کے ذریعے مسافر کم پیسوں میں باآسانی سفر کرسکتے ہیں۔ اسی طرح دوران سفر رش سے بچ کر کم وقت میں زیادہ سفر کرکے ٹائم بچ جاتا ہے۔ بی آر ٹی میں طلبہ، خواتین، بچے، بزرگ افراد، نوکر پیشہ لوگ و دیگر کئی طبقات سفر کرکے سیکیور بھی رہتے ہیں جیساکہ یہاں سیکیورٹی کا بھی ایک بہتر نظام ہے لہذا حکومت کو چاہئیے کہ فوری مزکورہ رقم ریلیز کرکے ماہانہ لاکھوں مسافروں کو مہیا ایک بہترین سہولت برقرار رکھا جائے۔

رابطہ کرنے پر نگران صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ نے ٹی این این کو بتایا کہ بی آر ٹی پراجیکٹ کا سارا نظام خیبر پختونخوا کی متعلقہ بیوروکریسی دیکھتی ہے اسمیں نگران صوبائی حکومت کا کوئی ذکر یا کردار ہے ہی نہیں۔ جہاں یہ بات کہ سیاسی اثر رسوخ کا استعمال کرکے اسی منصوبے کو متاثر کیا جا رہا ہے اسمیں کوئی حقیقت نہیں۔

نگران صوبائی حکومت تو چاہتی ہے کہ بی آر ٹی کا کنٹرول انکے پاس ہو کیونکہ انہوں نے تو اس منصوبے کا آڈٹ بھی کرنا یے۔ شاہد خٹک نے مزید بتایا کہ اس منصوبے پر اب تک 105 ارب روپے لگ چکے جبکہ منصوبہ ابھی مکمل بھی نہیں ہوا کہاں گیا اتنا پیسہ۔ انکا نہیں خیال کہ بی آر ٹی میں روزانہ تین لاکھ لوگ سفر کر رہے ہونگے جیساکہ بی آر ٹی انتظامیہ کے پاس اتنے بڑے فیگر کو ثابت کرنے کیلئے کوئی ٹھوس دلائل بھی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ مزکورہ منصوبہ صرف پیسوں کی کمائی کیلئے شروع کیا گیا تھا۔ کرپشن کی دیگر کہانیاں تو چھوڑ منصوبے کیلئے جو کمپیوٹرز خریدے گئے تھے ان میں اربوں روپے کا غبن ہوا ہے۔ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک کی حکومت نے بی آر ٹی منصوبہ محض لوٹ مار کیلئے شروع کیا تھا۔ ملک میں احتساب کرنے والے اداروں کو چاہئیے کہ فوری طور پر اس پراجیکٹ کا آڈٹ کرکے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جب پلاننگ نہیں تھی تو کیوں دکھاوے کیلئے ایک ایسا منصوبہ شروع کرکے قوم کو گمراہ کیا گیا۔ شاہد خٹک نے بتایا کہ منصوبے کیلئے اب درکار رقم وفاق کو ادا کرنی چاہئیے یا جو بیورو کریٹس منصوبہ دیکھتی ہے وہ ادا کریں۔ نگران حکومت میں شامل وزراء تو خود اپنے جیب سے پٹرول کے پیسے یا دیگر اخراجات کرکے کفایت شعاری کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔

واضح رہے کہ پشاور کی بس ریپڈ ٹرانزٹ پراجیکٹ خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے منصوبوں میں سے ایک ہے جسکا افتتاح 13 اگست 2020 کو ہوا تھا۔ اس وقت بی آر ٹی کی 220 بسیں آپریشنل ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر 180 سے 185 تک بسیں پشاور کے مختلف بی آر ٹی روٹس پر چلتی ہیں جبکہ دیگر بسوں کو مسافروں کی سہولت کیلئے ریزرو پر رکھا جاتا ہے۔ بی آر ٹی بس سروس میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطا 3 لاکھ سولہ ہزار تک مسافر سفر کرتے ہیں اور ماہانہ اوسطا ایک کروڑ تک مسافروں کی تعداد پہنچ جاتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button