لائف سٹائل

حیات آباد فیز 6 کے مکین پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں

 

محمد فہیم

پشاور کا پوش علاقہ حیات آباد جہاں گھر کے حصول کیلئے اب لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے درکار ہیں اور گھر ملنے کی امید بھی شاید کم ہی ہے۔ صوبے کے امراء اور خوانین اس علاقے میں رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں جس کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس جدید رہائشی بستی میں ہر سہولت میسر ہوگی لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے۔

حیات آباد فیز 6 کے رہائشی محمد اکرم کاروباری شخصیت ہے، انہیں ہر ہفتے 4 ہزار روپے دے کر پانی کا ٹینکر خریدنا پڑتا ہے جبکہ پینے کا پانی ہر ہفتے الگ سے خریدنا پڑتا ہے۔ محمد اکرم کہتے ہے کہ سرکاری نلکہ اب صرف دیکھنے کیلئے ہے گھر کی ضرورت پوری کرنے کیلئے ہر ہفتے ایک پرائیوٹ ٹینکر خریدنا پڑتا ہے اور پینے کیلئے منرل واٹر کی 19 لیٹر کی تین سے چار بوتلیں استعمال ہوتی ہیں جن کی قیمت 800 روپے سے متجاوز ہے۔ یعنی ہر ہفتے پانی کیلئے انہیں تقریبا 5ہزار روپے دینے پڑتے ہیں۔

2025 تک پشاور میں پینے کے پانی کی قلت پیدا ہوجائیگی

حیات آباد فیز 6 کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں میں بھی پانی کی یہی صورتحال ہے۔ سینی ٹیشن سروسز کمپنی پشاور کی جانب سے 2017 میں کی جانیوالی ایک تحقیق کے مطابق 2025 تک پشاور میں پینے کے پانی کی قلت پیدا ہوجائیگی۔ اگر دیکھا جائے تو پشاور میں ابھی سے پانی کی قلت شروع ہوگئی ہے۔ حیات آباد اور یونیورسٹی ٹاﺅن میں زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گھٹتی جا رہی ہے اور شہریوں کو اب پینے کا پانی ٹینکر میں منگوانا پڑرہا ہے۔

دوسری جانب سینی ٹیشن سروسز کمپنی پشاور کے ترجمان حسن علی کہتے ہیں کہ یہ تحقیق 6 برس قبل کی گئی اور اس کے اثرات نظر آرہے ہیں لیکن حالیہ بارشوں کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح میں بہتری آرہی ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 2025 میں شدید قلت کی صورتحال نہیں ہوگی۔

واٹر میٹر کی تنصیب کا منصوبہ 

انہوں نے کہا کہ پانی کی کمی روکنے کیلئے دو طریقے ہیں ایک طریقہ طلب سے زائد پانی کی فراہمی اور دوسرا پانی کے ضیاع کو روکنا ہے۔ پانی کی فراہمی کیلئے متبادل ذرائع ڈھونڈے جا رہے ہیں جبکہ ضیاع کو روکنے کیلئے سخت اقدامات کئے گئے ہیں انہی میں ایک واٹر میٹر کی تنصیب ہے۔ پشاور میں تجرباتی بنیادوں پر پانی کے میٹر استعمال کئے گئے ہیں جس سے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ اب خیبر پختونخوا سٹیز امپروومنٹ پراجیکٹ کے تحت پشاور میں واٹرمیٹر لگانے کا منصوبہ شروع کیاجائیگا جس سے پانی کا بل استعمال کے مطابق آئے گا ایسے میں شہری بے دریغ پانی کا استعمال نہیں کرینگے۔

پشاور کو آب رسانی کیلئے تین ڈیموں سے پانی فراہمی کا منصوبہ تجویز کیا گیا جس میں مہمند، جبہ اور باڑہ ڈیم شامل ہیں۔ مہمند ڈیم پشاور سے دور ہونے کی وجہ سے جبہ اور باڑہ ڈیم کی افادیت بڑھ گئی ہے۔ ان دونوں ڈیموں کا براہ راست فائدہ حیات آباد اور یونیورسٹی ٹاﺅن سمیت پورے پشاور کو ہوگا تاہم یہ دونوں ڈیم کاغذات تک ہی محدود ہیں۔  جبہ اور باڑہ ڈیم پر کام دراصل محکمہ بلدیات نے کرنا ہے تاہم ان منصوبوں میں محکمہ آبپاشی اور جنگلات کا بھی حصہ ہے۔ اراضی میں ایک بڑا حصہ جنگلات کا استعمال ہوگا اس لئے ان کی اجازت درکار ہے۔ جبکہ آبی ذخائر کا انتظام محکمہ آبپاشی کے پاس ہے لہٰذا وہ بھی حصہ دار ہیں۔ کچھ عرصہ قبل حیات آباد میں پانی کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے جبہ ڈیم سے حیات آبا دکے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کیلئے خصوصی منصوبہ تجویز کیا تھا۔ اتھارٹی نے منصوبے کی فیزبلٹی کیلئے فوری طور پر اجازت مانگتے ہوئے کام شروع کرنے کی درخواست بھی کی تھی۔

وفاق اور صوبے کی لڑائی میں پینے کا پانی بہہ گیا

خیبر سے منتخب سابق رکن صوبائی اسمبلی شفیق آفریدی کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں پر کام شروع کرنا انتہائی مشکل تھا کیونکہ ماضی کی حکومتوں کی ترجیحات میں ڈیموں کی تعمیر نہیں تھی تاہم گزشتہ دورمیں اس پر کام شروع کیا اور جبہ ڈیم سمیت باڑہ ڈیم پر بھی کام شروع کرنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن وفاقی حکومت نے جب صوبائی حکومت کے فنڈز روک لئے تو دیگر منصوبوں کی طرح یہ منصوبہ بھی کھٹائی کا شکار ہوگیا۔ شفیق آفریدی کے مطابق جبہ ڈیم کا منصوبہ آب رسانی کا منصوبہ ہے اور اس کیلئے بیشتر کام کرلیا گیا ہے تاہم مالی بحران کے باعث گزشتہ 14ماہ سے ایک پائی تک جاری نہیں ہوسکی ہے اور یہ منصوبہ مکمل طور پر رک گیا ہے۔ دوسری جانب باڑہ ڈیم کا منصوبہ آب رسانی کے ساتھ اراضی سیراب کرنے اور بجلی پیدا کرنے کا بھی منصوبہ ہے جس کی وجہ سے یہ منصوبہ سست روی کا شکار ہے۔ اس منصوبے کیلئے ڈیڑھ سال قبل ایک فرم کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جس نے 18ماہ میں ڈیٹیل ڈیزائن تیار کرنا تھا اب تک اس حوالے سے پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ تاہم اگر ڈیزائن مکمل ہوبھی گیا تو صوبائی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے اس پر کام آگے نہیں بڑھ سکے گا۔

باڑہ اور جبہ ڈیم منصوبوں کے خدوخال

جبہ ڈیم میں 37ہزار 984 ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی اور اس سے آئندہ 50 سال تک کیلئے پینے کے پانی کی ضرورت پوری کرلی جائیگی۔ اس پر 9 ارب 90 کروڑ 65 لاکھ روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا۔ یہ ڈیم پشاور کے علاقوں حیات آباد، ریگی اورپشتخرہ سمیت خیبر کے علاقوں شاہ کس، سور قمر، قمبر خیل، سرکی اور دیگر کو بھی پینے کا پانی فراہمی کریگا۔ جبہ ڈیم سے فلٹریشن پلانٹ لگا کر روزانہ 3 کروڑ 23 لاکھ گیلن یومیہ پانی حاصل کرنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ضلع خیبر میں ہی باڑہ ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بھی تجویز کیا گیا ہے اور یہ ڈیم جبہ ڈیم سے بڑا ہے اس ڈیم کی تعمیر کیلئے ابتدائی تخمینہ کے مطابق 30 ارب 25 کروڑ روپے درکار ہونگے اور ڈیم کی تعمیر کا ابتدائی خاکہ تیار کیا جاچکا ہے۔ ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف آبپاشی کی ضروریات کو پورا کرنے اور زیر کاشت رقبہ کے اضافہ میں مدد ملے گی بلکہ اس سے 5.8 میگاواٹ سستی بجلی بھی پیداہو گی۔ باڑہ ڈیم سے پشاور اور علاقہ کے عوام کے لئے سالانہ 5 ہزار 400 ملین گیلن صاف شفاف پینے کا پانی بھی فراہم کیا جائے گا۔

ڈیموں سے ٹرانسمشن لائن کا مہنگا منصوبہ

جبہ اور باڑہ سے پانی کی فراہمی کا منصوبہ تین سال قبل تیار کیا گیا تھا۔ جبہ اور باڑہ سے ٹرانسمشن لائنز بچھانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جس پر مجموعی طور پر 18 ارب روپے سے زائد خرچ کئے جانے تھے۔ جبہ اور باڑہ ڈیم سے ٹرانسمشن لائنز بچھانے پر 9،9 ارب روپے کی فیزبلٹی تیار کی گئی ہے اور صوبائی حکومت کو 18ارب روپے کی فیزبلٹی رپورٹ ارسال کر دی گئی تھی۔ یہ فیزبلٹی اب تک صرف کاغذات تک ہی محدود ہے سینی ٹیشن کمپنی پشاور اور پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی دونوں اس منصوبے میں دلچسپی کا اظہار کرچکے ہیں۔ دونوں بلدیاتی ادارے سب سے پہلے ڈیم پر کام شروع ہونے کے منتظر ہیں جس کے بعد وہ واٹر سپلائی کی لائنز پر کام کرینگے۔  دوسری جانب یہ فیزبلٹی تیار کئے ہوئے بھی دوسال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے اور مہنگائی کے باعث اس کی تخمینہ لاگت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button