تیراہ ایک پسماندہ پہاڑی علاقہ، بیشتر لوگ کورونا سے لاعلم
شاہ نواز آفریدی
ضلع خیبر: تیراہ میدان میں جب صاحب جان کی نماز جنازہ ان کے آبائی گاؤں قبیلہ شلوبر کے علاقے ڈونگا زیارت کلی میں ادا کی گئی تو مجمعے میں موجود لوگوں نے افسوس کیا کہ تیراہ ایک پسماندہ پہاڑی علاقہ ہے جہاں شرح خواندگی بہت کم ہے اور بیشتر لوگ کرونا وباء سے لاعلم ہیں۔
33 سالہ صاحب جان ولد گلا خان کے آباء و اجداد بھی ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ تھے اور دورافتادہ تیراہ میدان میں ٹرانسپورٹ اڈے میں گڈز سروسز کا کام کرتے تھے جو کچھ عرصہ پہلے بیماری میں مبتلا ہوئے اور بیماری مزید زیادہ ہونے پر ان کو پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں سے ان میں کرونا مرض کی تشخیص ہوئی اور وہاں 13 دن تک زیر علاج رہے اور آخرکار ہسپتال میں دم توڑ گئے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے متحدہ طلباء محاذ باڑہ کے جنرل سیکرٹری و سماجی کارکن محمد داؤد نے، جو کہ صاحب جان کے جنازے میں شریک تھے اور ان کے رشتہ دار ہیں، کہا کہ صاحب جان کے گھر میں دیگر کئی ایک بیمار اب بھی موجود ہیں جن پر گمان کیا جاتا ہے کہ وہ بھی کرونا میں مبتلا ہیں مگر مذکورہ علاقے میں نہ ماہر ڈاکٹر ہے اور نہ ہی کرونا کی تشخیص کا کوئی طریقہ کار جس کی وجہ سے لوگوں کو بیماری کے دوران سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ”لوگ دوردراز کے پہاڑی علاقوں سے سامان وغیرہ کے علاوہ علاج کی غرض سے بھی ان بازاروں کا رخ کرتے ہیں، ان بازاروں میں تیراہ میدان، لرباغ ملک دین خیل اور پیر میلہ ذخہ خیل کے بازار بھی شامل ہیں جن پر قبیلہ ملک دین خیل، شلوبر، ذخہ خیل سمیت کمر خیل، برقمبر خیل اور آدم خیل کے بھی ہزاروں خاندانوں کا انحصار ہے۔
تیراہ میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابقہ صدر ہیلتھ ٹیکسیشن اسلام الدین نے رابطہ پر بتایا کہ روزانہ کی بنیاد پر مریض آتے ہیں جن میں ٹمپریچر، بدن درد، سر درد سمیت منہ کے ذائقے کا نہ ہونا جیسی علامات ہوتی ہیں، جس پر کرونا کا خدشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے، ”تیراہ میدان میں صحت کی سہولیات کا بہت فقدان ہے جس کی وجہ سے دور دراز قبیلوں کے مریض پیر میلہ ذخہ خیل کے بازار کا رخ کرتے ہیں، ان مریضوں کو زیادہ تر ہائی اینٹی بائیوٹک کی ادویات دی جاتی ہیں تاکہ بیماری زیادہ نقصان نہ دے سکے۔
ان کے مطابق باڑہ اور تیراہ میدان میں صحت کی سہولت دینے میں نجی کلینکس اور ہسپتالوں کا اہم کردار ہے مگر دوسری جانب معاشی لحاظ سے کمزور عوام کیلئے نجی کلینکس و ہسپتالوں میں علاج ممکن نہیں۔
”تیراہ میدان میں صحت کی سہولیات کی شدت سے ضرورت ہے جہاں پر پورے علاقے میں قبیلہ شلوبر، ملک دین خیل، ذخہ خیل، برقمبر خیل، کمر خیل اور آدم خیل کے 50 ہزار سے زائد خاندان رہائش پذیر ہیں۔ اس تمام آبادی کیلئے حکومت کی جانب سے کوئی بڑا ہسپتال موجود نہیں جو کئی بیڈز پر مشتمل ہو جہاں مختلف چھوٹی بڑی سرجریاں کی جاتی ہوں اور جس میں سرجن اور ماہر ڈاکٹرز 24 گھٹنے موجود ہوں”، یہ باتیں سماجی کارکن، خیبر یونین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور باڑہ سیاسی اتحاد کے جنرل سیکرٹری زاہداللہ نے کیں۔
ان کا کہنا ہے کہ تیراہ کے علاقے میں حکومت کی جانب سے ٹائپ ڈی ہسپتال پر کام تیزی سے جاری ہے مگر مذکورہ ہسپتال کے فنکشنل ہونے میں ابھی وقت ہے، ”تیراہ میدان میں کرونا وباء سے نمٹنے کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی خاص اقدامات نہیں کئے گئے نہ ہی ویکیسنیشن کے لئے بڑی سطح پر روزانہ کی بنیاد پر کام جاری ہے تاہم محکمہ صحت کی جانب سے مختلف علاقوں میں کیمپس لگائے گئے ہیں جہاں لوگوں کو ویکیسن لگائی گئی۔”
زاہداللہ کے مطابق تیراہ میدان میں صحت سہولیات کی کمی کی وجہ سے ایمرجنسیز بالخصوص ڈیلیوری کے موقع پر مریض اور گھر والوں کو بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کرونا وباء سے نمٹنے کے لیے اسسٹنٹ کمشنر باڑہ نیک محمد بنگش سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ہم بطور انتظامیہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے دیئے ہوئے احکامات کی پیروی کرتے ہیں، ”کرونا وباء کی سخت صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضلعی انتظامیہ نے حکومتی اداروں لنڈی کوتل ہسپتال اور جرگہ ہال میں ضروت آئسولیش وارڈ بنائے ہیں کیونکہ وہاں طورخم بارڈر زیادہ قریب پڑتا ہے۔ دوسری جانب ہم ماسک کے استعمال اور ضرورت پر سوشل ڈسٹنسنگ کے احکامات بجا لاتے ہیں۔”
تیراہ میدان میں کرونا وباء کی روک تھام پر بات کرتے ہوئے چند دن پہلے تبدیل شدہ انچارج ڈاکٹر جہانگیر اور موجودہ انچارج میڈیکل سپرانٹنڈنٹ ڈوگرہ ہسپتال ڈاکٹر عالمگیر وزیر نے کہا کہ 29 اپریل سے باڑہ میں ویکیسنیشن کا عمل جاری ہے جس میں اب تک باڑہ میں 20 ہزار سے زائد افراد کو ویکیسن لگائی گئی جبکہ 11 آؤٹ ریچ اسٹیشنز پر بھی لوگوں کو ویکسینیٹ کیا گیا، ان جگہوں میں باڑہ بازار، شلوبر، اکاخیل، ملک دین خیل اور برقمبر خیل شامل ہیں۔
ان کے مطابق پہلے ماہ میں ڈیٹا اپ لوڈنگ اور دیگر پرٹوکولز کی وجہ سے کم لوگوں کی ویکیسنیشن کی گئی تاہم اب مختلف جگہوں پر کیمپ کی وجہ سے کم وقت میں زیادہ تر لوگوں کی ویکیسنیشن جاری ہے اور ہسپتال پر بھی رش کم ہو گیا ہے۔
تیراہ میدان میں کرونا وباء سے نمٹنے کے لیے اور ویکیسنیشن کےبارے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ویکسینشن کیلئے ٹیمیں گئی ہیں جہاں سینکڑوں یا ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو ویکیسنیشن کی گئی تاہم کرونا کے علاج معالجے اور تشخیص کےبارے زیادہ معلومات ضلعی صحت افسر کے پاس ہوں گی۔
ٹی این این کی جانب سے کئی مرتبہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر خیبر کے ساتھ ان کا موقف جاننے کیلئے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہو سکا۔
زاہداللہ نے حکومت اور محکمہ صحت سے اپیل کی کہ تیراہ میدان میں کرونا وباء کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اور مریضوں کی تشخیص کے لئے موبائل ٹیمز بھیجی جائیں، وہاں پر مختلف سرکاری عمارتوں میں ٹھہرائی جائیں تاکہ تیراہ میدان کے پسماندہ عوام کو صحت کی سہولیات ان کے علاقے میں میسر ہوں۔