خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

"میرے قد سے زیادہ مجھے معاشرے کی سوچ پست لگی”

عظمت تنہا

‘جب گھر سے سکول کے لئے نکلتا ہوں تو لوگوں کا طنز و مزاح، آوازیں کسنا طرح طرح کی باتیں برداشت کرنا روز کا معمول بن گیا ہے، کبھی کبھی تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ماں کا نہ ہونا، باپ کی دماغی معذوری، خود دونوں ٹانگوں سے معذوری، بہن کی ذمہ داری اور تعلیمی سفر میں درپیش مسائل کے ساتھ جینا کتنا کھٹن ہے لیکن پھر اللہ پر بھروسہ کرکے حوصلہ کرتا ہوں اور زندگی کے اس بوجھ کو اٹھا کر اپنی منزل کی طرف چل پڑتا ہوں۔

میرا نام صداقت خان ولد محمد خان ہے۔ تعلیمی ریکارڈ کے مطابق پیدائش کا سال 2004 ہے ویسے عمر میری اس سے دو تین سال زیادہ ہے۔

میرا تعلق ضلع بونیر کے گاؤں کوریا سے ہے تاہم میری ساری عمر اپنے ماموں کے ہاں بدال چغرزی میں گزری۔ میں اور میری بہن ایک نجی تعلیمی ادارے میں نویں جماعت کے طالب علم ہیں۔

میں بمشکل چھ سال کا تھا کہ میری ماں فوت ہو گئیں۔ اس وقت میری بہن شیرخوار بچی تھی جو ماں سے دو سال کی رہ گئی تھی۔ میرے والد صاحب دماغی معذور ہیں۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے ہم نے اپنے باپ کو بیمار پایا ہے، زندگی میں ان کے پیار کو ترس گئے ہیں۔

ایسی بات نہیں ہے کہ باپ ہم سے پیار نہیں کرتے، ہم سے بہت پیار کرتے ہیں لیکن ان کو پیار کا اظہار کرنا نہیں آتا۔ جب ہم دوسرے بچوں کے والدین کو دیکھتے ہیں تو جی بھر آتا ہے کہ کاش ہمارے والدین بھی ہمیں ایسا پیار دے سکتے۔

ماموں کے ہاں ہمیں آج تک کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوئی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ ان کے اپنے مسائل زیادہ ہیں اس لئے مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم ان پر بوجھ تو نہیں بن جائیں گے؟

صداقت خان

میرے اور والد صاحب کی بیماریاں لاعلاج نہیں ہیں، ضلعی ہسپتال میں ہم نے ڈاکٹرز سے مشاورت کی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ دونوں کا علاج ممکن ہے لیکن اس کے لئے آپ کو پشاور، اسلام آباد، لاہور یا کراچی جانا پڑے گا اور علاج کے بتائے ہوئے اخراجات بھی ہمارے بس سے باہر ہیں اسی لئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں کہ خدا کہیں سے کوئی غیبی مدد فرمائیں اور ہم ایک صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں۔

جہاں تک تعلیم کا سوال ہے تو ہم نے کبھی بھی اپنی غریبی کو تعلیمی راستے میں رکاوٹ بننے نہیں دیا۔ میں اور بہن دونوں نے شروع سے ہی پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے، سکول کے اساتذہ اور پرنسپلز کی محنت، شفقت اور دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ ہم ہر جماعت میں پہلی، دوسری یا تیسری پوزیشن پر رہے ہیں۔

ہم دونوں کی دلی خواہش ہے کہ اعلی تعلیم حاصل کر کے ملک و قوم کا نام روشن کریں لیکن تعلیم کے اس سفر کو جاری رکھنے کے لئے اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم میں سے کسی میں بھی اب یہ سکت نہیں رہی کہ ہمارے علاج یا تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا جا سکے۔

اسی لئے حکومت وقت اور مخیر حضرات سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے اور والد صاحب کے علاج کے ساتھ ساتھ ہمارے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے میں بھی ہماری معاونت فرمائیں۔

آخر میں اپنی قوم کے نام ایک پیغام دینے جا رہا ہوں کہ سب ابن آدم ہیں، سب برابر ہیں، ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری خطبے کے مطابق سب انسان برابر ہیں کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں اسی لئے اگر معاشرے میں کوئی کمزور، معذور یا لاچار دیکھیں تو اسے خدا کی طرف سے ایک قسم کا امتحان سمجھو کہ خدا نے آپ کو شکر اور صبر کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔’

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button